بانو قدسیہ: ایک عظیم مصنفہ، ایک عظیم بیوی

سال 1980 اور 1990 کی دہائی کے بچوں کو پتہ ہو گا کہ ٹیلی وژن ان کے لۓ کتنی اہمیت کا حامل تھا ۔اس دور میں جب کہ بچوں کو چوبیس گھنٹے کارٹون چینل نہیں ملا کرتے تھے وہ انتہائی شدت کے ساتھ ساڑھے چار بجنے کا انتظار کیا کرتے تھے کیونکہ اس وقت ٹی وی کی ٹرانسمیشن کا باقاعدہ آغاز ہوتا تھا ۔ سب سے پہلا پروگرام بصیرت ہوتا تھا ۔پھر اقرا اور پھر کارٹون ،پروگرام بچوں کے ہو یا بڑوں کے مگر بچے ٹی وی کے اردگرد ہی منڈلاتے نظر آتے تھے ۔

اور پھر آٹھ بجے کا وقت انتہائی اہم ہوتا تھا اس وقت گھر والوں کے ساتھ ساتھ ہماری ماسی اور اس کے علاوہ ساری ماسیاں ان کے نئے اور پرانے پیدا ہونے والے بچے سب ڈرامہ دیکھنے ٹی وی لاونچ میں موجود ہوتے تھے ۔ اس وقت کے لکھاری جن میں اشفاق احمد، فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین ،بانو قدسیہ وغیرہ شامل تھے لوگوں میں ایک خاص عزت کے حامل سمجھے جاتے تھے ۔رائیٹر کا نام دیکھ کر ہی ڈرامے کے موڈ کا اندازہ ہو جایا کرتا تھا ۔

یہ ہمارا پہلا تعارف تھا بانو قدسیہ سے ،اکثر ٹاک شوز میں وہ اشفاق احمد کے ساتھ نظر آتی تو اس وقت کہیں سے بھی یہ نہ لگتا کہ اشفاق احمد کا سایہ بنی یہ خاتون خود اتنی بڑی رائیٹر ہیں ۔ کالج کے دور میں جب ان کا ناول راجہ گدھ پڑھا تو پہلی دفعہ میں تو بہت کچھ سمجھ ہی نہیں آیا لگا ایک لو اسٹوری ہے ۔جو کہ ادھوری رہ گئی اور پھر ہر دفعہ جب جب پڑھتی گئی اس ناول کے نئے اسرار کھلتے گۓ ۔

کبھی لگا کہ یہ ایک معاشرتی ناول ہے کبھی اس میں انسانی تاریخ نظر آئی ایک تحریر کے اتنے پہلو میرے لۓ بہت حیران کن تھے ۔ اکثر ناول ہاتھ میں لے کر میں سوچتی تھی کہ جب اس ناول کو بانو آپا نے لکھا ہو گا تو ان کے ذہن میں کیا خیال ہو گا ۔میں آج بھی خود کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ اس ناول کا مکمل تجزیہ کر پاؤں اور حقیقت میں یہی بانو قدسیہ کی فکر کی گہرائی تھی ۔

2

بانو قدسیہ کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی تھا اور وہ تھا قدسی کا کردار جو کہ اشفاق احمد کی داسی کے روپ میں ہر پل ان کے گرد منڈلاتی رہتی تھیں ان کے آرام کا خیال رکھتی تھیں اور ان کی سیوا کرتی تھیں ،جس کے سبب وہ اردو ادب کے لۓ وہ سب تخلیق کر پاۓ جو وہ تخلیق کرنا چاہتے تھے ۔

اتنا بڑا نام ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی اپنے شوہر کے سامنے اس بات کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ بھی ایک بڑی رائیٹر ہیں ان کے گھر جانے والے لوگ جو ان کی ذات سے ناواقف ہوتے تھے ان کو ایک گھریلو عورت کی صورت میں دیکھتے تھے اور پھر کئی ملاقاتوں کے بعد ان کے سامنے یہ راز کھلتا کہ یہ وہ مصنفہ ہیں جن کے نام کے ساتھ اردو ادب کی کئ عظیم تصنیفات جڑی ہیں۔

چار فروری کو بانو قدسیہ ہم سے بچھڑ گئیں لیکن لگتا ہے کہ بچھڑنے کے بعد وہ ہم سے دور جانے کے بجاۓ اپنی کتابوں کے ذریعے ہم سے اور ذیادہ قریب آگئیں۔

To Top