آسٹریلیا میں نسل پرستی کا جن بے قابو ہو گیا پاکستانی طلبہ کے ساتھ ایسا کیا کر ڈالا کہ تمام پاکستانی احتجاج پر مجبور ہو گۓ

مغربی ممالک جو تہزیب کے علمبردار ہونے کا دعوی کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں ان کے اپنے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال روز بروز بدتر ہوتی جا نہی ہے امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی آۓ دن نسل پرستی کے سبب ایسے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جو کہ حکومتی دعوؤں کے قطعی برعکس ہوتے ہیں

اگرچہ آسٹریلیا میں اور کینیڈا میں انسانی حقوق کی صورتحال کافی بہتر ہے مگر اب پچھلے کچھ دنوں سے آسٹریلیا میں بھی ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جن میں مسلمان طلبہ کو ان کی قومیت اور مزہب کی بنیاد پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے  گذشتہ سال اپریل میں قبل آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں پاکستانی طالب علم ذیشان کو چاقوؤں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا، بعد ازاں حملے میں شک کے شہبے میں دو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا

مگر اب ایک بار پھر گزشتہ دن آسٹریلیا کے شہر نیو کاسل میں عبداللہ قیصر نامی نوجوان کو یونی ورسٹی کے کیمپس میں نہ صرف لوٹا گیا اور اس دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کو ملک چھوڑ کر جانے کی دھمکی بھی دی گئی

تفصیلات کے مطابق اکیس سالہ عبد اللہ قیصر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گزشتہ برس فروری میں نیوکاسل آئے تھے۔

آسٹریلیا کے شہر نیو کاسل میں نسل پرستوں نے ہفتے کو لائبریری جاتے ہوئے عبداللہ کی گاڑی کو گھیرا اور اس کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔

نسل پرستوں نے پاکستانی طالب علم کو مکا مارا اور شہر چھوڑنے کی دھمکی دی۔جس کے نتیجے میں عبداللہ کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی اور ان کو شدید نوعیت کی اندرونی چوٹیں بھی آئیں عبداللہ کے مطابق حملہ آور سات سے آٹھ تھے اور ان کے ساتھ ایک لڑکی بھی موجود تھی جس نے ان کی گاڑي سے موبائل بھی نکال لیا تھا

اس حوالے سے پولیس نے کیمپس میں موجود سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے تاہم اب تک کسی فرد کے گرفتار ہونے کی اطلاع نہیں ملی عبداللہ کے ساتھ ہونے والے واقعہ کے نتیجے میں آسٹریلیا میں موجود مسلمان طلبہ نے اس نسل پرستی کے اقدام پر شدید احتجاج کیا اور حکومت سے مسلمان طالب علموں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا

 

To Top