Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.
اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو۔ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے۔ ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔(النساء-32)
ہم نے کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں یہ بات ضرور پڑھی یا کہی ہوگی کہ “کاش میں لڑکا ہوتی”۔ زندگی کے کسی مقام پہ آپ کے ذہن میں شاید یہ بات آئی ہو کہ “مردوں کو ہم عورتوں پر کس لیے فوقیت دی گئی ہے؟ کیا انہیں ایک درجہ زیادہ دے کر ہمیں کمتر کہا گیا ہے؟ کیا ہماری کوئی ویلیو نہیں” ۔
تو آج اس آیت کی رو سے میں اسی بات کی وضاحت کرونگی۔
سب سے پہلے تو اللہ نے ہم سے کہہ دیا کہ جو میں نے دوسروں کو دے رکھا ہے، جو زیادہ نظر آتا ہے تمہیں، اس کی تمنا نہ کرو۔
کیوں کہا ہے ایسا اللہ نے؟
کیونکہ یہ ایک ایسی خواہش ہے جس کا پورا ہونا ناممکن ہے۔ اور ایسی خواہشیں جو پوری نہیں ہوسکتیں ان کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ وہ انسان کو غلط راہ پہ لے جانے کا سبب بنتی ہیں۔
کیا ایک عورت مرد بن سکتی ہے؟ نہیں۔
کیا ایک مرد عورت بن سکتا ہے؟ نہیں۔
کیوں؟ یہ تقسیم کیوں ہے؟
اگر ہم خود پہ غور کریں، مرد خود پہ، اور عورت اپنی ذات پہ، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ نے ہمیں بہت مختلف بنایا ہے۔ ہمارے کام، ہماری ذمہ داریاں، ہماری سوچ، سب مختلف ہیں۔
مرد گھر سے باہر کی ذمہ داریوں کو جس احسن طریقے سے ادا کر سکتے ہیں وہ ایک عورت نہیں کرسکتی۔
اور جس طرح ایک عورت اپنے گھر کی ذمہ داری کو، ایک نسل کی پرورش کی ذمہ داری کو پورا کرسکتی ہے وہ مرد نہیں کرسکتا۔
اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ دونوں میں کسی شے کی کمی ہے۔ بلکہ، دونوں کو ان کی ذمہ داریوں کے مطابق صلاحیت دی گئی ہے۔ نا مرد کا کام کمتر ہے، نہ ہی عورت کا۔
تو ایسے میں اگر ان دونوں میں سے کوئی اپنی ذمہ داری چھوڑ کر دوسرے کی طرح بننا چاہے تو کیا ہوگا؟ معاشرے میں بگاڑ ہوگا۔ کیونکہ جو نظام چل رہا ہے اس میں مرد عورت دونوں کا کردار ضروری ہے، اگر ایک کی طرف سے بھی کمی ہوگی تو مسئلہ تو ہوگا نا؟
تو اس سے پتا لگتا ہے کہ دونوں کا کردار اس دنیا کے لیے ضروری ہے۔ کسی ایک کی کمی بھی بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے۔
آج میں اس پہ بات نہیں کروںگی کہ مرد کا ایک درجہ زیادہ کیوں ہے، یہ میرے اللہ کا حکم ہے اور میرا ذہن اس کی حکمت کو سمجھنے کے قابل ہو یا نہ ہو، “میں نے سنا، اور میں نے قبول کیا”۔
پھر اللہ تعالی فرماتا ہے: جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اس کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اس کا حصہ ہے۔
اس سے کیا پتا لگتا ہے؟
یہ کہ جو انسان خواہ مرد ہو یا عورت، جیسا ان کا عمل ہوگا ویسا ان کو نتیجہ ملے گا۔ اگر عورت کے اعمال مرد سے بہتر ہیں تو اسے اللہ فوقیت دیں گے۔ اور اگر مرد کے اعمال بہتر ہیں تو اسے فوقیت ملے گی۔ انجام تقوی کے اسکیل پہ ہوگا۔
آخر میں اللہ نے کہا:
ہاں، تم میرے فضل سے مجھ سے مانگو، مجھ سے دعا کرو۔
ایک بات میں آپ کو یہاں سمجھا دوں کہ اجر وہ ہوتا ہے جو ہمیں ہمارے اعمال پہ ملتا ہے، مگر فضل ایکسٹرا ہے۔ یعنی، اجر اعمال کا بدلہ، اور فضل ایکسٹرا نعمتیں اللہ کی طرف سے۔
تو اللہ کہتے ہیں تم دوسرے کو دیکھ کر اس کی تمنا نہ کرو، بلکہ مجھ سے فضل کی دعا کرو۔ مجھ سے مانگو جو مانگنا ہے۔
ہمیں اللہ کی تخلیق اور اس کی تقسیم پہ راضی رہنا چاہیے۔ اجر ہر ایک کو اس کی تقسیم کے لحاظ سے نہیں بلکہ اعمال کے لحاظ سے دیا جائے گا