کیا ایک عورت اپنی مرضی سے اپنی نس بندی نہیں کرواسکتی؟

انسان کو کسی دوسرے کی تکلیف کا احساس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب وہ خود اس سے گزرتا ہے پہلے بیٹے کی پیدائش پر جب میرا پورا خاندان خوشیاں منا رہا تھا میرے برابر والے بستر پر موجود عورت نے ساتویں بیٹی کو جنم دیا تھا ۔ کمزور جسم اور پیلی رنگت کے ساتھ جب اس عورت نے ساتویں بیٹی کو انتہائی دشواری کے ساتھ جنم دیا تو اس کی اس اذیت اور تکلیف کی میں خود گواہ تھی

اس کے بعد بیٹی کا سنتے ہی اس کے گھر والوں میں جو مایوسی پھیلی اس کے ردعمل کے طور پر اس عورت کو جس نے زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد اس بیٹی کو جنم دیا تھا کسی نے پانی تک کا نہیں پوچھا اس کی ساس اور شوہر تو بیٹی کا سنتے ہی ہسپتال سے اس طرح غائب ہو گۓ جیسے اس نے بیٹی نہیں بلکہ کسی گناہ کو جنم دیا ہو


اس کے پاس اس کی بوڑھی ماں کے سوا کوئی نہیں بچا جو کہ زچہ اور بچہ کی دیکھ بھال بیک وقت کرنے سے قاصر تھی میں نے اپنے کھانے میں سے کچھ اشیا اس کو کھانے کو دیں تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگۓ اس نے مجھ سے پوچھا کہ اولاد تو مرد کے نصیب سے ہوتی ہے اس بیٹی کے پیدا ہونے میں میرا کیا قصور ہے ۔

اسی وقت جب ڈاکٹر معائنے کے لیۓ آئی تو اس نے اس عورت کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا کہ بی بی میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ ابھی مذید اولاد پیدا مت کرنا آخر تم اپنی جان کی دشمن کیوں بن گئی ہو تمھارے جسم میں خون نہیں ہے اس بار تو ہم نے اللہ کے حکم سے بچا لیا اگلی بار نہیں بچا پائیں گے

میں نے اس عورت سے کہا کہ آخر تم کیوں خودکشی کرنا چاہ رہی ہو اس بار ہسپتال سے جانے سے پہلے تم آپریشن کیوں نہیں کروا لیتیں جب تمھارا شوہر تمھیں پوچھتا نہیں تو تم کم ازکم جن بچیوں کو دنیا میں لا چکی ہو ان کو پالنے کی خاطر ہی آپریشن کروا لو

غم و غصے اور مایوسی کے جزبات کے زیراثر اس نے میری بات ماننے کا فیصلہ کر لیا اور ڈاکٹر کے پاس نس بندی کے آپریشن کے لیۓ اپنا نام دے دیا ہاسپٹل والوں نے جب اس کے شوہر کے سائن مانگے تو اس کی جگہ اس کی ماں نے ہی سائن کر دیۓ ۔

سرکاری ہسپتال والے بھی اتنا غم نہیں پالتے دوسرا وہ ڈاکٹر صاحبہ کی سفارش بھی کام ائی کہ یہ عورت اب مذید بچے پیدا کرنے کے قابل بھی نہیں اس لیۓ بغیر شوہر کی اجازت کے اس کا آپریشن ہو گیا اس کے بعد میری بھی ہسپتال سے چھٹی ہو گئی کچھ عرصے تک تو اس عورت کا چہرہ یاد رہا پھر زمانےکے گرم و سرد نے وہ بھی بھلا دیا ۔

کافی سالوں کے بعد ایک دفعہ جب میں شاپنگ سنٹر میں ضروری خریداری کر رہی تھی تو شاپنگ مال کے سامنے ایک فقیرنی زمین پر اس حالت میں نظر آئی کہ جس کا سارا جسم مفلوج تھا اس کے اوپر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں اس کے برابر ایک پانچ سال کی بچی میلی حالت میں اس کے اوپر سے مکھیاں ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی ۔

کراہیت اور ترس کے جزبات کے ساتھ میں نے اس عورت کے قریب پڑے ہوۓ پیالے میں بھیک ڈالی تو اس کو دیکھ کر کسی شناسائی کا احساس ہو اچانک میری آنکھوں کے سامنے ہسپتال کا بستر اور اس عورت کی حالت آگئی اور مجھے یاد آگیا کہ میں نے اس عورت کو کہاں دیکھا تھا ۔

میں پیروں کے بل اس عورت کے پاس بیٹھ گئي اب مجھے اس سے کراہیت محسوس نہیں ہو رہی تھی اس عورت سے اس کی اس حالت کا سبب پوچھا اس نے جو بتایا وہ میرے رونگٹھے کھڑے کر دینے کے لیۓ کافی تھا

اس عورت نے بتایا کہ نس بندی کا آپریشن کروانے کے بعد جب وہ گھر گئی اور اس نے اپنے شوہر کو بتایا کہ اس نے آپریشن کروا لیا ہے کیونکہ ڈاکٹر کے مطابق اب وہ مذید بچے پیدا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی اس پر اس کا شوہر غضبناک ہو گیا اور اس نے اس عورت کی کمزوری کا لحاظ کیۓ بغیر اس کو بری طرح مارنا پیٹنا شروع کر دیا

اس مار کے نتیجے میں اس کی کمر پر بری طرح چوٹ آئی جس سے وہ ہلنے جلنے سے قاصر ہو گئی اس کی محتاجی کو دیکھتے ہوۓ اس کی ماں بھی دل کا دورہ پڑنے سے مر گئی اس کے شوہر نے اس کو گھر سے نکال دیا ۔

اس کی باقی ساتوں بیٹیوں کو بھی گھر سے نکال دیا گیا ۔ اس کی ماں کا گھر بھی کراۓ کا تھا جہاں سے کچھ دنوں میں ہی اس کو جواب مل گیا اور وہ ان بیٹیوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر آگئی اب یہی فٹ پاتھ اس کا گھر ہے دن بھر اس کی بیٹیاں ادھر ادھر گھوم کر کبھی کسی کی گاڑی صاف کرتی ہیں کبھی بھیک مانگتی ہیں

سب سے چھوٹی بیٹی ہر وقت اس کے ساتھ رہتی ہے اس کی اس کہانی نے مجھے اپنی ہی نظر میں ایک مجرم بنا دیا کیوںکہ نس بندی کا آپریشن کروانے کے لیۓ میں نے بھی اسے قائل کیا تھا اس عورت کی یہ حالت دیکھ کر میرے اندر سے یہ سوال اٹھا کہ کیا عورت کے پاس اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنی ہی نس بندی کرواسکے ؟ آپ کے پاس اس سوال کا جواب ہو تو مجھے ضرور بتایۓ گا

To Top