عورتوں کے مسجد جانے کی ممانعت میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔جانیۓ قرآن و سنت کی روشنی میں

عورت اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے، مسلمان عورت ماں، بہن، اور بیٹی ہر روپ میں گھرانے کا جزولانیفک ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اس کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی رہی ہے، کیونکہ اس کی تعلیم و تربیت گویا آنے والی نسلوں کی اصلاح کا پیش خیمہ ہے اور اس کی جہالت آنے والی کئی پشتوں کا خانہ خراب کرنے کے مترادف ہے۔ اسی لیے ایک مصری شاعر حافظ ابراہیم نے کیا خوب کہا تھا

ماں ایک درسگاہ ہے اور اس درسگاہ کو اگر آپ نے سنواردیا تو گویا ایک بااصول اور پاکیزہ نسب والی قوم کی تشکیل کردی


اسلامی معاشرے میں تعلیم کے سب سے بڑا مرکز مسجد ہے مگر اس حوالے سے بعض علما کرام عورت کے مسجد میں داخلے کو مکروہ قرار دیتے ہیں اور اس طریقے سے ہماری نسلوں کی سب سے بڑی معلم کی تعلیم کے راستوں پر روک لگا دیتے ہیں اور اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری نسلوں کی بہترین تربیت کرۓ گی ۔

اس حوالے سے دو مکتبہ فکر سر گرم عمل ہیں ایک طبقے کا کہنا ہے کہ عورتوں کا مسجد میں جا نا احادیث کی رو سے منع ہے جب کہ دوسرا طبقہ بھی احادیث کی روشنی میں اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں داخلے کی اجازت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ثابت ہے ۔

عورتوں کا مسجد میں داخلہ منع ہے

 

اس مکتبہ فکر کے لوگ جس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہے

حضرت ام سلمہ -رضی اللہ عنہا- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کی کوٹھریوں کا اندرونی مکان ہے۔

اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوۓ علما کرام کا فرمان ہے کہ جب عورتوں کی نماز ان کی کوٹھریوں میں زیادہ بہتر ہے تو انہیں مسجد میں آنے سے پرہیز کرنا چاہیۓ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے، تو میں نماز عشاء قائم کرتا، اور اپنے جوانوں کو حکم دیتا کہ گھروں میں آگ لگادیں۔

مزید درج بالا حدیث کا حوالہ دیتے ہوۓ کہا جاتا ہے کہ اگر عورتوں پر بھی مسجد میں نماز واجب ہوتی تو حضور کبھی بھی یہ نہ فرماتے کہ عورتوں اور بچوں کا خیال نہ ہوتا ۔ حضور کے اس فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو مسجد آنے کے حوالے سے استثنا حاصل ہے ۔

مسجد میں عورتوں کا داخلہ منع نہیں ہے

جس مکتبہ فکر کے علما عورتوں کے مسجد میں جانے پر اتفاق رکھتے ہیں ان کا اس بارے میں کہنا یہ ہے کہ

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے سلام پھیرتے تو عورتیں فوراً واپس جا کر (مقتدیوں کی طرف) آپ کے چہرہ مبارک پھیرنے سے پہلے اپنے گھروں میں داخل ہو جاتیں

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں عورتیں مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جایا کرتی تھیں، ان کے لیے کوئی ممانعت نہ تھی

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ایک زوجہ صبح اور عشاء کی نماز مسجد میں جا کر جماعت کے ساتھ ادا کرتی تھیں، ان سے پوچھا گیا، آپ کیوں (مسجد کی طرف) نکلتیں ہیں، حالانکہ آپ جانتی بھی ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کام کو پسند نہیں کرتے اور غیرت کھاتے ہیں؟ وہ کہنے لگیں، ان کوکون سی چیز مانع ہے کہ وہ مجھے منع نہیں کرتے؟ کہا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ تم اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔’’

(صحیح بخاری: ۸۵۸، صحیح مسلم: ۴۴۳ مختصراً)

جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی ناپسند کرنے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی بیوی کو مسجد جانے سے نہیں روکتے تھے تو بعد کے مفتیان یہ جرأت کیونکر کرسکتے ہیں؟

اس سارے معاملے کو اگر عقلی کسوٹی پر جانچا جاۓ تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ عورت کے لیۓ بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے پردے کا خصوصی اہتمام کرے اور  اس پر مسجد جا کر نماز کا ادائگی مردوں کی طرح واجب نہیں ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بارے میں ممانعت بھی نہیں ہے ۔تعلیم حاصل کرنے کی نیت اور ارادے سے پردے کا خصوصی اہتمام کرتے ہوۓ وہ مسجد میں نماز ادا کر سکتی ہے

To Top