آصف علی زرداری جو پاکستان کے سیاسی حلقوں میں مفاہمت کے بادشاہ کے نام سے جانے جاتے ہیں 16 جون 2015 کو پاکستان فوج کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے بیان کے بعد خود ساختہ جلاوطنی اختیار کۓ بیٹھے تھے، 29 نومبر کی راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد 23 دسمبر 2016 کو وطن واپس آنے کا اعلان کر چکے ہیں ۔
سیاسی حلقوں میں ان کی واپسی کو انتہائي اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور ہماری کمزور حافظہ رکھنے والی قوم ان کے استقبال کی تیاریاں کر رہی ہے ۔
پاناما لیکس کے بھنور میں پھنسے نواز شریف کے لۓ آصف علی زرداری کی آمد کسی مسیحائی کا سبب بنے گی یا ان کی مشکلات میں مذید اضافہ کر دے گی، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا مگر تجزیہ نگاروں کی راۓ کے مطابق پیپلز پارٹی اور خصوصا آصف علی زرداری ماضی کی طرح اب بھی کوئی سخت موقف اختیار نہیں کریں گے ۔اس کے بدلے میں وہ حکومتی بینچوں سے ذیادہ سے ذیادہ مراعات حاصل کرنے کی کوشش ضرور کریں گے یعنی فیصلہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہو سکتا ہے ۔
نواز شریف اور آصف علی زرداری کی پرانی یاری کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ چوہدری نثار ہے جن کے خلاف پیپلز پارٹی پوری طاقت کے ساتھ تحریک چلا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے آصف علی زرداری کی آمد کے بعد ان کی مفاہمانہ پالیسیوں کا جادو چل چاۓ اور ڈاکٹر عاصم کی رہائی یا ضمانت عمل میں آجاۓ جس کے بدلے میں پیپلز پارٹی بھی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوۓ 2018 تک نواز شریف کا ساتھ دینے کا فیصلہ اس یقین کے ساتھ کر لے کہ اگلی باری تو ان ہی کی ہے تبھی بلاول بھٹو زرداری اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ اگلے صدر اور وزیر اعظم پیپلز پارٹی ہی سے ہوں گے۔
سیاسی بھیڑ چال کا شکار عوام اپنی سادہ لوحی کے سبب ایک بار پھر ان سیاسی لیڈران کے ہاتھوں بے وقوف بننے کے لۓ تیار ہے اور ہر جانب سے آصف علی زرداری کے پر جوش استقبال کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں اور میں بیٹھ کر صرف یہ سوچ رہی ہوں کہ خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود بدلنا نہیں چاہتی۔