آپ بھی سوچئیے

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

جس طرح بارش کی ایک ایک بوند بادل کی گرفت سے آزاد ہوتی ہے اور زمین پر آ کر ٹکراتی ہے اور مخصوص آواز سے اپنے ارد گرد موجود ہوا کو نغمہ سنا کر اپنی آزادی کی خوشی بیان کرتی ہے۔

اسی طرح انسان کو سماج،تہذیب و ثقافت معاشرتی اقدار اور معاشی فرسودگی کے شکنجے نے ایسے جکڑ رکھا ہے جیسے کوئی نوکیلا تیز دھار آرا گوشت و پوست کے بخئیے ادھیڑ دے اور شریانوں میں گردش کرتے خون کے سرخ خلیوں کو ابدی نیند سلا دے۔

یہ بھی عین ممکن ہے کہ واہ میڈیکل کالج میں زیرِتعلیم کسی طالبعلم کو سرجری اور میڈیسن کی کتابوں کے بجائے نازیہ حسن، نصرت فتح علی خاں یا مہدی حسن کی روح میں سرائیت کرتی موسیقی نے روزوشب اپنے حصار میں لے رکھا ہو۔

یہ بھی عین ممکن ہے کہ انجئنرنگ یونورسٹی سے فارغ والتحصیل ہونے والے کسی طالبعلم کو روائیتی طرز فکر معاش بالکل ہی لاحق نہ ہو بلکہ وہ قائدانہ صلاحیتوں سے لبریز دیوانہ وار اپنے مقصد کے حصول کےلئے شمع جلا کر ہتھیلی پر رکھے کسی ویران سڑک پر منزل کی طرف گامزن ہو۔

یہ بھی عین ممکن ہے کہ سماج اور روائیتی نظام تعلیم کے بوجھ تلے دبنے کی بجائے کسی ڈاکئے کا بیٹا ، طویل عرصے کی خود کلامی اورذہنی کشمکش کے بعد خود کو بالآخر اس چوراھے پر لے آتا ہے جہاں سنہرے خوابوں کی تعبیر ممکن ہوتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ میں کون ہوں؟ کیا میں بادلوں کے شکنجے سے رہائی پانے والی بارش کی اس بوند کی مانند ہوں جس نے بادلوں کے نظام جبر کو خیر باد کہ دیا ہے یا ابھی تک میں اس گھٹن سے لڑنے کا سوچنے تک کا بھی فیصلہ نہیں کر پایا؟

میں نے خود سے سوال کیا ہے آپ بھی کم از کم ایک بارسہی خود سے سوال کیجئے

To Top