Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.
انور مسعود بلاشبہ باکمال شاعر ہیں ۔ ان کا کہا ہوا اور لکھا ہوا نسلیں پڑھیں گی اور لوگوں تک پہنچائیں گی ۔ جشن ریختہ میں ایک بار دوران مشاعرہ انہوں نے کہا، میں نے الفاظ لوگوں کے ہونٹوں سے لوگوں کے کانوں تک پہنچائے ہیں۔
میں ایک عرصے سے ادبی سرگرمیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کی اداکاری کر رہا تھا ۔ پھر ایک روز ماہر امراض ناک کان گلہ پروفیسر ڈاکٹر امجد صاحب نے مجھے PC Hotel Lahore میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے دعوت دی ۔ تقریب میں مشاعرہ اور محفل موسیقی کے ذریعے پاکستان کے خوبصورت اور بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعروں (سوائے میرے ) اور موسیقاروں کو اپنے فن کے اظہار کا موقع دیا جانا تھا ۔
دس فروری 2018 کو رات 9 بجے PC Hotel کے کرسٹل ہال میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا ۔تقریبا 10 بجے تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر ارشاد حسین قریشی صاحب کو بحیثیت مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا ۔ پروفیسر ڈاکٹر امجد نے اپنے خوبصورت انداز بیاں اور بے تکلف لہجے کے باعث دوران میزبانی سامعین کو محظوظ کیا ۔
شاعری کی نشست کا آغاز ہوا تو میں نے حسب عادت و روایت ایک غزل پیش کی ۔ امریکہ سے تشریف لائی پروفیسر بینا گوئندی نے اپنے اشعار سے نئے رنگ بکھیرے ۔ ڈاکٹر طاہر شہیر نے اپنی نظموں سے ہال میں بیٹھے ہر شخص کو قہقہے بخشے ۔ جناب عباس تابش نے اپنے ہر ایک شعر سے فرد فرد تک اردو غزل کا محبت بھرا پیغام پہنچایا ۔اور زاہد فخری نے غزل ، نظم اور مزاح الغرض ہر صنف شاعری میں شاہکار پیش کیے ۔
سلسلہ ہائے نظم و غزل کے بعد برصغیر پاک و ہند کے موسیقار گھرانوں میں بلند مقام رکھنے والے استاد رفاقت علی خان صاحب اور ان کے صاحب زادے نے ایسے سر چھیڑے کہ سب رقص کرنے پہ مجبور ہوگئے ۔ یہ خوبصورت محفل اختتام کو پہنچی ۔مگر اس سے جڑی یادیں ذہن کے دریچوں پہ دستک دیتی رہیں