بتیس روپے بارہ آنے کے عوض مجھے روایات کی دیواروں میں چنوا دیا گیا

میں اس دور کی انار کلی ہوں میرا قصور یہ ہے کہ میں نے محبت کی ہے ۔میں نے اپنی اوقات سے بڑھ کر مانگنے کی جرات کی ہے حاکم وقت کی نظر میں میرا جرم بہت بڑا ہے جس کی سزا دیواروں میں چنوانے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتی ۔ حاکم وقت کی عدالت لگی تھی جہاں مجھے پیش ہونا تھا ۔مجھے صفائی دینے کا حق نہیں ملنا تھا یہ میں بھی جانتی تھی ۔ اس عدالت میں میری پیشی صرف اور صرف مجھے سزا سنانے کے لیۓ تھی ۔

میری دائیں اور بائیں جانب میرے بھائی کھڑے تھے ۔ مجھے دھتکارتے ہوۓ اور غیض و غضب سے حاکم وقت یعنی میرے ابو کے دربار میں پیش کیا گیا ۔ میرے ابو نے میری جانب نفرت بھری نظر سے دیکھا تو میری روح تک کانپ گئی مگر میں نے خود کو حوصلہ دلایا کہ میں نے محبت کی تھی اور محبت کرنا کوئی جرم نہیں ہوتا ۔


میں نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی تو مجھے گھر کی کوئی دوسری عورت کمرہ عدالت میں نظر نہ آئی ۔ البتہ ایک رجسٹر تھامے ایک عمر رسیدہ داڑھی والا شخص وہاں موجود تھا اس کے ساتھ ہی سفید لباس میں ایک اور شخص بھی بیٹھا ہوا تھا جس کو میں بچپن سے اپنے ابو کے دوست کی حیثیت سے جانتی تھی۔

اکثر ان کی گود میں بیٹھ کر میں ان سےبہت ساری باتیں کیا کرتی تھی ۔ گزشتہ مہینے ہی ان کی بیوی کا انتقال ہوا تھا مگر مجھے سمجھ نہیں آیا کہ وہ یہاں کیوں موجود ہیں ۔میں جانتی تھی کہ جو میں نے کیا مجھ سے پہلے میرے خاندان کی کسی لڑکی نے نہ کیا تھا ۔ مگر میں نے اپنے ہی گھر میں اپنی پھوپھیوں کو شادی کے غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔

میں نے آٹھویں جماعت پاس کر لی تھی میں نے اپنی جماعت کے ساتھ ساتھ پورے اسکول میں اول پوزیشن حاصل کی تھی مجھے تعلیم سے عشق تھا میں نے اپنی امی سے کہا تھا کہ مجھے شادی نہیں کرنی مجھے آگے پڑھنا ہے مجھے  گاؤں سے دور والے اسکول میں داخلہ دلوا دیں ۔

مگر میری یہ فرمائش میرے باپ اور بھائیوں کی غیرت کے لیۓ ایک تازیانہ ثابت ہوئی انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے میری بغاوت حد سے بڑھ جاۓ مجھے روایات کی دیواروں میں چنوا دیا جاۓ تاکہ میں ایسی بغاوت کا بیچ کسی اور کے اندر نہ بو سکوں اس کے لیۓ پہلا شخص جو ان کو نظر آیا وہ میرے ابا کے دوست ہی تھے ۔

آج میرا ان سے نکاح پڑھوایا جا رہا تھا ۔ میری کتاب میں لکھا تھا کہ نکاح تو خوشی کا سبب ہوتا ہے مگر یہ کیسا نکاح تھا جس میں میری خوشی شامل نہ تھی ۔ میں نے آخری بار اپنے ابا سے بات کرنے کا حوصلہ کیا رندھی ہوئی آواز میں ان کو مخاطب کیا ابا میرے ساتھ یہ ظلم نہ کرو مجھے پڑھنے دو ۔

جس پر میرے بھائي نے زور سے دھموکا میری کمر پر رسید کیا اور کہا آج تعلیم کی اجازت مانگتی ہے کل اپنا حصہ مانگے گی ابا اس کی زبان ہی کاٹ ڈالو قینچی کی طرح چل رہی ہے ۔ابا نے نکاح خواں کی طرف اشارہ کیا نکاح خواں آگے بڑھا اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے احمد علی کے ساتھ بتیس روپے بارہ آنے کے عوض نکاح قبول ہے ۔

میرے بھائی نے میرے سر کو زور سے ٹھوکا دیا اور کہا دیکھو ہاں کہہ دیا اور اس طرح بتیس روپے بارہ آنے کے عوض مجھے دیواروں میں چنوا دیا گیا

 

To Top