مجھے میرے ماں باپ نے برباد کر دیا ایک امیر زادے کا شکوہ

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

میرے پاس سب کچھ تھا اللہ کا دیا بھی اور میرے ماں باپ کی مہربانی سے ، میرے ابو اپنے علاقے کے وڈیرے ہیں اسی سبب مجھے دنیا کی وہ ساری نعمتیں حاصل رہیں جن کی کوئی خواہش ہی کر سکتا ہے پیسہ ، پیار طاقت سب کچھ میرے گھر کی لونڈی تھی مجھے بچپن ہی سے سکھایا گیا کہ میں دنیا کے اور خاص طور پر اپنے علاقے کے غریبوں کے بچوں سے افضل ہوں ۔

میری تعلیم شہر کے مہنگے ترین تعلیمی اداروں سے ہوئی جہاں مجھ جیسے ہی پیسے والوں کے بچے پڑھتے تھے اور پڑھتے کیا تھے اپنے استادوں پر حکومت کرتے تھے ۔ جہاں تعلیمی میدان میں کامیابی کے لیۓ کبھی دھونس کبھی سفارش اور کبھی تھوڑے سے تحائف سے کام چل جاتا تھا ۔


میری زندگی میں انکار کا لفظ نہیں تھا مجھے جو چاہیۓ ہوتا تھا وہ میرا ہوتا تھا اور اسی بنیاد پر میری تربیت کی جا رہی تھی آخر میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا میرے لاڈ اٹھانے ان کا حق تھا ان ہی حالات میں میں نے جب جوانی کی منزل پر قدم رکھے تو جوانی ایک نشے کی طرح میرے انگ انگ سے پھوٹنے لگی ۔

بے فکری اچھی خوراک اور بہترین پہناؤے میں بسا میرا وجود ہر ایک کو اپنی جانب متوجہ کر لیا کرتا تھا لڑکیاں میرے گرد اس طرح منڈلاتی تھیں کہ میرے ساتھی میری قسمت پر رشک کرتے تھے میرا ہر روز عید اور ہر رات کسی نہ کسی حسینہ کی زلفوں کے ساۓ میں شب برات ہوتی ۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی میرے بابا نے میری سالگرہ کے موقعے پر خیرات کا اہتمام کیا جس کے لیۓ مجھے بھی گاؤں جانا پڑا جب حویلی میں قدم رکھا تو گاؤں کے لوگ میرے استقبال اور ملنے والی خیرات کی امید میں میری راہوں میں کھڑے تھے ۔ سب نے میرا استقبال پھول برسا کر کیا ۔

ان لوگوں میں میری نظر ایک چودہ پندرہ سالہ لڑکے پر پڑی وہ ہمارے گاؤں کا نہیں لگ رہا تھا اس کے سنہرے بال اور سرخ و سپید رنگت اس بات کا پتہ دے رہی تھیں کہ اس کا تعلق کسی پہاڑی علاقے سے ہے میں نے جب اپنے بابا سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ گاؤں میں ان کے مزارعے کی بہن کا بیٹا ہے جو کہ کسی پٹھان سے بیاہی ہوئی تھی اور بیوہ ہو کر واپس آگئی ہے اور اس کا کل سرمایہ یہی بیٹا ہے ۔

میں نے بابا سے کہا مجھے یہ لڑکا شہر والے گھر کے لیۓ چاہیۓ مجھے وہاں کام والے کسی بندے کی ضرورت ہے میں جانتا تھا کہ میری بات میرے بابا کے لیۓ حکم کا درجہ رکھتی ہے اور واپسی پر وہ لڑکا میرے ساتھ ہو گا ۔ میرے علاوہ کوئی بھی اس حقیقت سےواقف نہ تھا کہ میرے ذہن میں کیا چل رہا ہے ۔

میں اصل میں ان رنگ رنگ کی عورتوں سے بور ہو گیا تھا اس لڑکے کی شکل میں مجھے کچھ نیا کرنے کا راستہ مل رہا تھا اس لڑکے کو گھر لاتے ہی سب سے پہلے میں نے اس لڑکے کو باتھ روم میں گھسایا تاکہ وہ نہا دھو لے اور اس کے پاس سے آنے والی غربت کی بدبو ختم ہو سکے ۔اس کے بعد میں نے اپنے ہم مزاج دوستوں کو فون کیا کہ آجائیں نئی چیز لایا ہوں ۔

ایک گھنٹے میں سب آگۓ ان سب کے سامنے جب میں نے اس لڑکے کو پیش کیا تو سب جیسے پاگل ہو گۓ اس کے بعد پہلے تو ہم نے پینے پلانے کی محفل رکھی اس دوران وہ لڑکا ڈرا سہما سا ایک کونے میں بیٹھا ہمارے فحش مزاق کا نشانہ بنتا رہا محفل جوبن میں آتے ہی میں اٹھ کھڑا ہوا اور میں نے اس لڑکے کی قمیض اتار دی ۔ ہمارے جزبات اس کو دیکھ کر اور بھڑک گۓ ہم ایک ساتھ کی طرف بڑھے اس نے مزاحمت کرتے ہوۓ رونا شروع کر دیا ۔

مگر اس کے رونے کو بھی ہم نے اس کا انداز سمجھا میرے ایک دوست نے بڑھ کر اس کی شلوار بھی اتار ڈالی اس لڑکے نے اپنی جان بچانے کے لیۓ باہر بھاگنا چاہا تو ہم نے دروازہ لاک کر دیا وحشت اور درندگی میں ہم پاگل ہو رہے تھا اس پر شراب کے نشے نے ہمیں بالکل درندہ بنا ڈالا تھا ۔

ہم نے اس کے ساتھ جنسی زيادتی کا گھناونا کھیل کھیلنا شروع کر دیا مگر اس لڑکے نے ہمت نہ ہاری میں جب اس کی جانب بڑھا وہ کھڑکی کے پاس کھڑا تھا مجھے اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور کھڑکی سے باہر چھلانگ لگا دی میرا فلیٹ پانچویں منزل پر تھا ۔ برہنہ حالت میں جیسے ہی وہ نیچے گرا ہمارا سارا نشہ ہرن ہو گیا ۔

جب ہم اپنی حالت درست کر کے نیچے تک آۓ تب تک وہاں لوگوں کا ڈھیر لگ چکا تھا ہماری ٹوٹی ہوئی کھڑکی کے شیشے سب کو یہ بتانے کے لیۓ کافی تھے کہ یہ لڑکا کہیں اور سے نہیں ہمارے فلیٹ ہی سے کودا ہے اس کی برہنگی اور اس کے جسم پر نظر آنے والے نشانات اس کی حالت کی گواہی دینے کے لیۓ کافی تھے ۔وہ مر چکا تھا ۔

پولیس آئی اور اس نے ہم سب کو گرفتار کر لیا میرے والد کے مخالفین کو اللہ نے موقع فراہم کر دیا وہ اس کیس کے مدعی بن بیٹھے اور جس طرح میں نے ایک ماں سے اس کا اکلوتا سہارہ چھینا تھا ویسے ہی میرے ماں باپ بھی اپنے اکلوتے سہارے سے محروم ہو گۓ مجھے میرے  باپ کے اثر وسوخ کی بنیاد پر پھانسی تو نہیں ہو سکی مگر عمر قید کی سزا ہو گئی

آج جیل کی تاریکیوں میں بیٹھ کر میں تمام ماں باپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ بچوں کو سب مہیا کر دینا ہی آپ کا فرض نہیں ہے بلکہ ان کی تربیت بھی آپ کی ذمہ داری ہے

 

To Top