خاندان میں شادی کرنے سے بچوں کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اسلام کی روشنی میں جانیۓ

شادی بقاۓ نسل کا ایک اہم وسیلہ سمجھا جاتا ہے جس کا رواج ہر معاشرے میں موجود رہا ہے ۔ شادی کے بعد انسانی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالی اس کو صحت مند اولاد سے نوازے اسی سبب ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ زندگی کے کسی بھی میدان میں کسی سے پیچھے نہ ہو یا کسی ایسی بیماری میں مبتلا نہ ہو جو کہ اس کے لیۓ آئندہ آنے والی زندگی میں مشکلات کا سبب بنے


عام طور پر اکثر لوگ موجودہ زمانے میں خاندان میں شادی کے حوالے سے مخالفت کرتے ہیں ان کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ خاندان میں کزن کے ساتھ شادی کرنے کے سبب پیدا ہونے والا بچہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے پاکستان میں تقریباً 62 فیصد شادیاں کزن میریجز کی صورت میں ہوتی ہیں اور پیدائشی طور پر جینیاتی معذوریوں یا بیماریوں سے متاثرہ لوگوں کی تعداد تین کروڑ کے لگ بھگ ہے، جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

بریڈ فورڈ میں کیۓ جانے والے ایک سروے کے مطابق کزن میریجز کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں میں جینیاتی امراض دس گُنا زیادہ دیکھے گئے ہیں، جو ایک تشویش ناک بات ہے، ’’اس کو روکنے کے لیے ایسی شادیوں کی حوصلہ شکنی کر کے انہیں کم کرنا ناگزیر ہے۔پاکستان میں بڑے پیمانے پر خاندان آپس میں شادیاں کر رہے ہیں، جس کے باعث لوگوں میں مختلف جسمانی بیماریاں رونما ہوتی ہیں۔ ان بیماریوں میں اعضاء کا پیدائشی بگاڑ، بچوں کا مردہ پیدا ہونا، پیدائشی طور پر بچوں میں یا عمر کی کسی بھی حصے میں ذیابیطس، الزائمر، مرگی، کینسر، موٹاپن،گنجاپن، دل، بلڈ پریشر، نابیناپن، گونگاپن، بانجھ پن، سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت میں پیدائشی کمی یا اس سے مکمل طور پر محرومی جیسی بیماریاں شامل ہیں۔

پاکستان میں جینیاتی سائنسدانوں نے پہلا آن لائن ڈیٹا بیس قائم کر دیا ہے، جس کی بدولت ملک میں ایسے بچوں کی پیدائش کو بڑی حد تک روکنے میں مدد مل سکے گی، جو کوئی نہ کوئی جسمانی معذوری یا بیماری لے کر پیدا ہوتے ہیں۔

نفاذِ اسلام سے پہلے عرب قبائل میں Cousins کی آپس کی شادی رائج تھی،80 شادیاں عم زاد میں ہوتی تھیں، بلکہ مسیحی اور یہودی شریعہ میں بھی ماں کے رشتے سے کزنس کی باہمی شادی کی اجازت تھی، یعنی ماموں زاد اور خالہ زاد بھائی / بہن کی شادی ہو سکتی تھی، لیکن عرب معاشرے میں قبل از اسلام سے ہی چچازاد شادیاں رائج تھیں۔ جب قرآنِ مجید نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے عربوں کی اس معاشرتی رسم کو رّد نہیں کیا، بلکہ سورۃ النسا اور سورۃ الاحزاب میں کھول کر تشریح کر دی گئی کہ کون سے رشتے آپس میں شادی کے لئے حلال ہیں اور کون سے حرام ہیں

اس حوالے سے مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جس بات سے اسلام میں منع نہیں فرمایا گیا وہ نقصان دہ نہیں ہو سکتی۔البتہ بچوں کی ذہنی معذوری اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہونے کے اسباب ماں باپ کی جین سے منتقل ہونا ہو سکتا ہے لیکن اس کا واحد سبب عم ذاد سے شادی کو قرار دینا اسلام کے خاندانی نظام کو کمزور کرنے کی ایک سازش بھی ہو سکتی ہے

To Top