موجودہ دور کے انساں پر اک خوبصورت غزل

سبھی فرشتے ہیں یہاں تو خطاکار کون ہے
پاک دامن ہیں یہاں تو گنہگار کون ہے

اپنا آپ ڈوبا ہے غلطیوں میں
مجمعے سے ڈھونڈ رہاہوں سزاوار کون ہے

حسرت یہی کہ مل جائے زمانہ
گریباں نہیں دیکھتا کہ حقدار کون ہے

اندر جو لڑائی میں اور توُ کی ہے
یہ بُت سا پھر کیا ہے یہ باہر کون ہے

تضاد سا بھر اہے ظاہر و باطن میں
معلوم یہ نہیں کہ خود ار کون ہے

سبھی ہیں قطار میں مطلب کے واسطے
فقیر کون ہے یہاں امیدوار کون ہے

انگلیاں ہیں سب کی اک دوسرے پہ
داغدار نہیں کوئی تو قصور وار کون ہے

یہاں ہیں سارے ہوش میں اگر
بہکا بہکا یہ پھر مے خوار کون ہے

منز ل و رختِ سفر نہیں میرا کوئی
میں چل کے رُک گیا سا منے دیوار کون ہے

ملامت نہیں کوئی ضمیر ہے مرا ہوا
آئینے میں دیکھتا ہوں یہ جاندار کون ہے

گڑ گڑا کے پوچھوں خدا سے ملکؔ
اگر قرار ہے مجھے تو بے قرار کون ہے

To Top