افسانہ “آنندی” – غلام عباس (حصہ اوّل)

بلدیہ کا اجلاس زوروں پر تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلافِ معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہ تھا۔ بلدیہ کے زیرِ بحث مسئلہ یہ تھا کہ زنان بازاری کو شہر بدر کر دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بد نما داغ ہے۔

بلدیہ کے ایک بھاری بھرکم رکن جو ملک و قوم کے سچے خیر خواہ اور دردمند سمجھے جاتے تھے نہایت فصاحت سے تقریر کر رہے تھے۔

“اور پھر حضرات آپ یہ بھی خیال فرمائیے کہ ان کا قیام شہر کے ایک ایسے حصے میں ہے جو نہ صرف شہر کے بیچوں بیچ عام گزر گا ہ ہے بلکہ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے چنانچہ ہر شریف آدمی کو چار و ناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں شرفاء کی پاک دامن بہو بیٹیاں اس بازار کی تجارتی اہمیت کی وجہ سے یہاں آنے اور خرید و فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ صاحبان! یہ شریف زادیاں ان آبرو باختہ، نیم عریاں بیسواؤں کے بناؤ سنگار کو دیکھتی ہیں تو قدرتی طور پران کے دل میں بھی آرائش و دلربائی کی نئی نئی امنگیں اور ولولے پیدا ہوتے ہیں اور وہ اپنے غریب شوہروں سے طرح طرح کے غازوں، لونڈروں، زرق برق ساریوں اور قیمتی زیوروں کی فرمائشیں کرنے لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا پُر مسرت گھر، ان کا راحت کدہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔”

“اور صاحبان پھر آپ یہ بھی تو خیال فرمائیے کہ ہمارے نونہالانِ قوم جو درسگاہوں میں تعلیم پا رہے ہیں اور ان کی آئندہ ترقیوں سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں اور قیاس چاہتا ہے کہ ایک نہ ایک دن قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا سہرا ان ہی کے سر بندھے گا، انہیں بھی صبح شام اسی بازار سے ہو کر آنا جاتا پڑتا ہے۔ یہ قحبائیں ہر وقت ابھرن سولہ سنگار کئے راہرو پر بے حجابانہ نگاہ و مژہ کے تیر و سناں برساتی اور اسے دعوتِ حسن دیتی ہیں۔ کیا انہیں دیکھ کر ہمارے بھولے بھالے نا تجربہ کار جوانی کے نشے میں محو، سود و زیاں سے بے پرو اہ نو نہالانِ قوم اپنے جذبات و خیالات اور اپنی اعلیٰ سیرت کو معصیت کے مسموم اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ صاحبان! کیا ان کا حسنِ زاہد فریب ہمارے نونہالانِ قوم کو جادۂ مستقیم سے بھٹکا کر، ان کے دل میں گناہ کی پر اسرار لذتوں کی تشنگی پیدا کر کے ایک بے کلی، ایک اضطراب، ایک ہیجان برپا نہ کر دیتا ہو گا”

اس موقع پر ایک رکن بلدیہ جو کسی زمانے میں مدرس رہ چکے تھے اور اعداد و شمار سے خاص شغف رکھتے تھے بول اٹھے:

“صاحبان، واضح رہے کہ امتحانوں میں ناکام رہنے والے طلبہ کا تناسب پچھلے پانچ سال کی نسبت ڈیوڑھا ہو گیا ہے۔”

ایک رکن نے جو چشمہ لگائے تھے اور ہفتہ وار اخبار کے مدیرِ اعزازی تھے، تقریر کرتے ہوئے کہا “حضرات ہمارے شہر سے روز بروز غیرت، شرافت، مردانگی، نیکو کاری و پرہیز گاری اٹھتی جا رہی ہے اور اس کی بجائے بے غیرتی، نا مردی، بزدلی، بدمعاشی، چوری اور جعل سازی کا دور دورہ ہو تا جا رہا ہے۔ منشیات کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ قتل و غارت گری، خودکشی اور دیوالیہ نکلنے کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کا سبب محض ان زنانِ بازاری کا نا پاک وجود ہے کیونکہ ہمارے بھولے بھالے شہری ان کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو کر ہوش و خرد کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی بارگاہ تک رسائی کی زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کرنے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ سے زر حاصل کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اس سعی و کوشش میں جامۂ انسانیت سے باہر ہو جاتے ہیں اور قبیح افعال کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جانِ عزیزی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا جیل خانوں میں پڑے سڑتے ہیں۔”

ایک پنشن یافتہ معمر رکن جو ایک وسیع خاندان کے سرپرست تھے اور دنیا کا سرد و گرم دیکھ چکے تھے اور اب کش مکش حیات سے تھک کر باقی ماندہ عمر سستانے اور اپنے اہل و عیال کو اپنے سایہ میں پنپتا ہوا دیکھنے کے متمنی تھے، تقریر کرنے اٹھے۔۔ان کی آواز لرزتی ہوئی تھی اور لہجہ فریاد کا انداز لئے ہوئے تھا۔ بولے: صاحبان رات رات بھر ان لوگوں کے طبلے کی تھاپ، ان کی گلے بازیاں، ان کے عشاق کی دھینگا مشتی، گالی گلوچ، شور و غل ہا ہا ہا ہو ہو ہو، سن سن کر آس پاس کے رہنے والے شرفا کے کان پک گئے ہیں۔ رات کی نیند حرام ہے تو دن کا چین مفقود۔ علاوہ ازیں ان کے قرب سے ہماری بہو بیٹیوں کے اخلاق پر جو اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ ہر صاحب اولاد خود کر سکتا ہے۔ آخری فقرہ کہتے کہتے ان کی آواز بھرا گئی اور وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکے۔ سب اراکین بلدیہ کو ان سے ہمدردی تھی کیونکہ بدقسمتی سے ان کا مکان اس بازار حسن کے عین وسط میں واقع تھا۔ ان کے بعد ایک رکن بلدیہ نے جو پرانی تہذیب کے علمبردار تھے اور آثار قدیمہ کو اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے تھے تقریر کرتے ہوئے کہا۔

“حضرات! باہر سے جو سیاح اور ہمارے احباب اس مشہور اور تاریخی شہر کو دیکھنے آتے ہیں جب وہ اس بازار سے گزرتے ہیں اور اس کے متعلق استفسار کرتے ہیں تو یقین کیجئے کہ ہم پر گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے۔”

اب صدر بلدیہ تقریر کرنے اٹھے۔ گو قد ٹھگنا اور ہاتھ پاؤں چھوٹے چھوٹے تھے مگر سر بڑا تھا۔ جس کی وجہ سے بردبار آدمی معلوم ہوتے تھے۔ لہجہ میں حد درجہ متانت تھی، بولے: “حضرات! میں اس امر میں قطعی طور پر آپ سے متفق ہوں کہ اس طبقہ کا وجود ہمارے شہر اور ہمارے تہذیب و تمدن کے لئے باعثِ صد عار ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کا تدارک کس طرح کیا جائے۔ اگر ان لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ یہ اپنا ذلیل پیشہ چھوڑ دیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کھائیں گے کہاں سے؟” ایک صاحب بول اٹھے۔ “یہ عورتیں شادی کیوں نہیں کر لیتیں؟”

اس پر ایک طویل فرمائشی قہقہہ پڑا اور ہال کی ماتمی فضا میں یکبارگی شگفتگی کے آثار پیدا ہو گئے۔ جب اجلاس میں خاموشی ہوئی تو صاحب صدر بولے۔ “حضرات یہ تجویز با رہا ان لوگوں کے سامنے پیش کی جا چکی ہے۔ اس کا ان کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ آسودہ اور عزت دار لوگ خاندانی حرمت و ناموس کے خیال سے انہیں اپنے گھروں میں گھسنے نہ دیں گے اور مفلس اور ادنیٰ طبقہ کے لوگوں کو جو محض ان کی دولت کے لئے ان سے شادی کرنے پر آمادہ ہوں گے، یہ عورتیں خود منہ نہیں لگائیں گی۔”

اس پر ایک صاحب بولے۔ “بلدیہ کو ان کے نجی معاملوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ بلدیہ کے سامنے تو یہ مسئلہ ہے کہ یہ لوگ چاہے جہنم میں جائیں مگر اس شہر کو خالی کر دیں۔”

صدر نے کہا “صاحبان یہ بھی آسان کام نہیں ہے۔ ان کی تعداد دس بیس نہیں سینکڑوں تک پہنچتی ہے اور پھر ان میں سے بہت سی عورتوں کے ذاتی مکانات ہیں۔”

یہ مسئلہ کوئی مہینے بھر تک بلدیہ کے زیر بحث رہا اور بالآخر تمام اراکین کی اتفاق رائے یہ امر قرار پایا کہ زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کو خرید لینا چاہئے اور انہیں رہنے کے لئے شہر سے کافی دور کوئی الگ تھلگ علاقہ دے دینا چاہئے۔ ان عورتوں نے بلدیہ کے اس فیصلہ کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ بعض نے نا فرمانی کر کے بھاری جرمانے اور قیدیں بھگتیں مگر بلدیہ کی مرضی کے آگے ان کی کوئی پیش نہ چل سکی اور چار و ناچار صبر کر کے رہ گئیں۔

اس کے بعد ایک عرصہ تک ان زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کی فہرستیں اور نقشے تیار ہو تے رہے اور مکانوں کے گاہک پیدا کئے جاتے رہے۔ بیشتر مکانوں کو بذریعۂ نیلام فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان عورتوں کو چھ مہینے تک شہر میں اپنے پرانے ہی مکانوں میں رہنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اس عرصہ میں وہ نئے علاقہ میں مکان وغیرہ بنوا سکیں۔

ان عورتوں کے لئے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہ شہر سے چھ کوس دور تھا۔ پانچ کوس تک پکی سڑک جاتی تھی اور اس سے آگے کوس بھر کا کچا راستہ تھا۔ کسی زمانہ میں وہاں کوئی بستی ہو گی مگر اب تو کھنڈروں کے سوا کچھ نہ رہا تھا۔ جن میں سانپوں اور چمگادڑوں کے مسکن تھے اور دن دہاڑے اُلّو بولتا تھا۔ اس علاقے کے نواح میں کچے گھروندوں والے کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے۔ مگر کسی کا فاصلہ بھی یہاں سے دو ڈھائی میل سے کم نہ تھا۔ ان گاؤں کے بسنے والے کسان دن کے وقت کھیتی باڑی کرتے، یا یونہی پھرتے پھراتے ادھر نکل آتے ورنہ عام طور پر اس شہر خموشاں میں آدم زاد کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ بعض اوقات روز روشن ہی میں گیدڑ اس علاقے میں پھرتے دیکھے گئے تھے۔

پانچ سو کچھ اوپر بیسواؤں میں سے صرف چودہ ایسی تھیں جو اپنے عشاق کی وابستگی یا خود اپنی دلبستگی یا کسی اور وجہ سے شہر کے قریب آزادانہ رہنے پر مجبور تھیں اور اپنے دولت مند چاہنے والوں کی مستقل مالی سرپرستی کے بھروسے بادل نا خواستہ اس علاقہ میں رہنے پر آمادہ ہو گئی تھیں ورنہ باقی عورتوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ یا تو اسی شہر کے ہوٹلوں کو اپنا مسکن بنائیں گی یا بظاہر پارسائی کا جامہ پہن کر شہر کے شریف محلوں کی کونوں کھدروں میں جا چھپیں گی یا پھر اس شہر کو چھوڑ کر کہیں اور نکل جائیں گی۔

یہ چودہ بیسوائیں اچھی خاصی مالدار تھیں۔ اس پر شہر میں ان کے جو مملوکہ مکان تھے،، ان کے دام انہیں اچھے وصول ہو گئے تھے اور اس علاقہ میں زمین کی قیمت برائے نام تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ملنے والے دل و جان سے اس کی مالی امداد کرنے کی لئے تیا ر تھے۔ چنا نچہ انہوں نے اس علاقے میں جی کھول کر بڑے بڑے عالیشان مکان بنوانے کی ٹھانی۔ ایک اونچی اور ہموار جگہ جو ٹوٹی پھوٹی قبروں سے ہٹ کر تھی “منتخب کی گئی۔ زمین کے قطعے صاف کرائے اور چابک دست نقشہ نویسوں سے مکان کے نقشے بنوائے گئے اور چند ہی روز میں تعمیر کا کام شروع ہو گیا۔ دن بھر اینٹ، مٹی، چونا، شہتیر، گارڈر اور دوسرا عمارتی سامان گاڑیوں، چھکڑوں، خچروں، گدھوں اور انسانوں پر لد کر اس بستی میں آ تا اور منشی صاحب حساب کتاب کی کاپیا ں بغلوں میں دبائے انہیں گنواتے اور کاپیوں میں درج کرتے۔۔۔ میر صاحب معماروں کو کام کے متعلق ہدایات دیتے۔ معمار مزدوروں کو ڈانٹتے ڈپٹتے مزدور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔ مزدور نیوں کو چلا چلا کر پکارتے اور اپنے ساتھ کام کرنے کے لئے بلاتے۔ غرض سارا دن ایک شور ایک ہنگامہ رہتا۔ اور سارا دن آ س پاس کے گاؤں کے دیہاتی اپنے کھیتوں میں اور دیہاتنیں اپنے گھروں میں ہوا کے جھو نکوں کے ساتھ دور سے آ تی ہوئی کھٹ کھٹ کی دھیمی آوازیں سنتی رہتیں۔

اس بستی کے کھنڈروں میں ایک جگہ مسجد کے آ ثار تھے اور اس کے پاس ہی ایک کنواں تھا جو بند پڑا تھا۔ راج مزدوروں نے کچھ تو پانی حاصل کرنے اور بیٹھ کر سستانے کی غرض سے اور کچھ ثواب کمانے اور اپنے نمازی بھائیوں کی عبادت گزاری کے خیال سے سب سے پہلے اس کی مرمت کی چونکہ یہ فائدہ بخش اور ثواب کا کام تھا، اس لئے کسی نے کچھ اعتراض نہ کیا چنانچہ دو تین روز میں مسجد تیار ہو گئی۔

 

دن کو بارہ بجے جیسے ہی کھانا کھانے کی چھٹی ہوئی دو ڈھائی سو راج، مزدور، میرِ عمارت، منشی اور ان بیسواؤں کے رشتے دار یا کارندے جو تعمیر کی نگرانی پر مامور تھے، اس مسجد کے آ س پاس جمع ہو جاتے اور اچھا خاصا میلہ سا لگ جاتا۔

ایک دن ایک دیہاتی بڑھیا جو پاس کے کسی گاؤں میں رہتی تھی، اس بستی کی خبر سن کر آ گئی۔ اس کے ساتھ ایک خورد سال لڑکا تھا۔ دونوں نے مسجد کے قریب ایک درخت کے نیچے گھٹیا سگریٹ، بیڑی، چنے اور گڑ کی بنی ہوئی مٹھائیوں کا خوانچہ لگا دیا۔ بڑھیا کو آئے ابھی دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ ایک بوڑھا کسان کہیں سے ایک مٹکا اٹھا لایا اور کنویں کے پاس اینٹوں کا ایک چھو ٹا سا چبوترا بنا پیسے کے دو دو شکر کے شربت کے گلاس بیچنے لگا۔ ایک کنجڑے کو جو خبر ہوئی وہ ایک ٹوکرے میں خربوزے بھر کر لے آ یا اور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس بیٹھ کر “لے لو خربوزے، شہد سے میٹھے خربوزے!” کی صدا لگانے لگا۔ ایک شخص نے کیا کیا، گھر سے سری پائے پکا، دیگچی میں رکھ، خوانچہ میں لگا، تھوڑی سی روٹیاں، مٹی کے دو تین پیالے اور ٹین کا ایک گلاس لے آ موجود ہو ا اور اسی بستی کے کارکنوں کو جنگل میں گھر کی ہنڈیا کا مزا چکھانے لگا۔

ظہر اور عصر کے وقت، میر عمارت، منشی، معمار اور دوسرے لوگ مزدوروں سے کنویں سے پانی نکلوا نکلوا کر وضو کرتے نظر آ تے۔ ایک شخص مسجد میں جا کر اذان دیتا، پھر ایک کو امام بنا دیا جاتا اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے۔ کسی گاؤں میں ایک ملا کے کان میں جو یہ بھنک پڑی کہ فلاں مسجد میں امام کی ضرورت ہے وہ دوسرے ہی دن علی الصبح ایک سبز جزدان میں قرآن شریف، پنجسورہ، رحل اور مسئلے مسائل کے چند چھوٹے چھوٹے رسالے رکھ آ موجود ہوا اور اس مسجد کی امامت باقاعدہ طور پر اسے سونپ دی گئی۔

ہر روز تیسرے پہر گاؤں کا ایک کبابی سر پر اپنے سامان کا ٹوکرا اٹھائے آ جاتا اور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس زمین پر چولہا بنا، کباب، کلیجی، دل اور گردے سیخوں پر چڑھا، بستی والوں کے ہاتھ بیچتا۔ ایک بھٹیاری نے جو یہ حال دیکھا تو اپنے میاں کو ساتھ لے کر مسجد کے سامنے میدان میں دھوپ سے بچنے کے لئے پھونس کا ایک چھپر ڈال کر تنور گرم کرنے لگی۔ کبھی کبھی ایک نوجوان دیہاتی نائی، پھٹی پرانی کسبت گلے میں ڈالے جوتوں کی ٹھوکروں سے راستہ روڑوں کو لڑھکاتا ادھر ادھر گشت کرتا دیکھنے میں آ جاتا۔

ان بیسواؤں کے مکانوں کی تعمیر کی نگرانی ان کے رشتہ دار یا کارندے تو کرتے ہی تھے، کسی کسی دن وہ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے عشاق کے ہمراہ خود بھی اپنے اپنے مکانوں کو بنتا دیکھنے آ جاتیں اور غروب آفتاب سے پہلے یہاں سے نہ جاتیں۔ اس موقع پر فقیروں اور فقیرنیوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں سے آ جاتیں اور جب تک خیرات نہ لے لیتیں اپنی صداؤں سے برابر شور مچاتی رہتیں اور انہیں بات نہ کرنے دیتیں۔ کبھی کبھی شہر کے لفنگے، اوباش و بیکار مباش کچھ کیا کرو، کے مصداق شہر سے پیدل چل کر بیسواؤں کی اس نئی بستی کی سن گن لینے آ جاتے اور اگر اس دن بیسوائیں بھی آئی ہوتیں تو ان کی عید ہو جاتی۔ وہ ان سے دور ہٹ کر ان کے گردا گرد چکر لگاتے رہتے۔ فقرے کستے، بے تکے قہقہے لگاتے۔ عجیب عجیب شکلیں بناتے اور مجنونانہ حرکتیں کرتے۔ اس روز کبابی کی خوب بکری ہوتی۔

اس علاقے میں جہاں تھوڑے ہی دن پہلے ہو کا عالم تھا اب ہر طرف گہما گہمی اور چہل پہل نظر آنے لگی۔ شروع شروع میں اس علاقہ کی ویرانی میں ان بیسواؤں کو یہاں آ کر رہنے کے خیال سے جو وحشت ہوتی تھی، وہ بڑی حد تک جاتی رہی تھی اور اب وہ ہر مرتبہ خوش خوش اپنے مکانوں کی آرائش اور اپنے مرغوب رنگوں کے متعلق معماروں کو تاکیدیں کر جاتی تھیں۔

بستی میں ایک جگہ ایک ٹوٹا پھوٹا مزار تھا جو قرائن سے کسی بزرگ کا معلوم ہوتا تھا۔ جب یہ مکان نصف سے زیادہ تعمیر ہو چکے تو ایک دن بستی کے راج مزدوروں نے کیا دیکھا کہ مزار کے پاس دھواں اٹھ رہا ہے اور ایک سرخ سرخ آنکھوں والا لمبا تڑنگا مست فقیر، لنگوٹ باندھے چار ابرو کا صفایا کرائے اس مزار کے ارد گرد پھر رہا ہے اور کنکر پتھر اٹھا اٹھا کر پرے پھینک رہا ہے۔ دوپہر کو وہ فقیر ایک گھڑا لے کر کنویں پر آیا اور پانی بھر بھر کر مزار پر لے جانے اور اسے دھونے لگا۔ ایک دفعہ جو آیا تو کنویں پر دو تین راج مزدور کھڑے تھے۔ وہ نیم دیوانگی اور نیم فرزانگی کے عالم میں ان سے کہنے لگا۔ “جانتے ہو وہ کس کا مزار ہے؟ کڑک شاہ پیر بادشاہ کا! میرے باپ دادا، ان کے مجاور تھے۔” اس کے بعد اس نے ہنس ہنس کر اور آنکھوں میں آنسو بھر بھر کر پیر کڑک شاہ کی کچھ جلالی کراماتیں بھی ان راج مزدوروں سے بیان کیں۔

شام کو یہ فقیر کہیں سے مانگ تانگ کر مٹی کے دو دئے اور سرسوں کا تیل لے آیا اور پیر کڑک شاہ کی قبر کے سرہانے اور پائنتی چراغ روشن کر دئے۔ رات کو پچھلے پہر کبھی کبھی اس مزار سے اللہ ہو کا مست نعرہ سنائی دے جاتا۔

To Top