ڈیجیٹل زندگی اورعزیز لوگ، کوئی ادھڑی لیس اور ٹوٹا بٹن آپ کا متظر تو نہیں؟؟

 اس ڈیجیٹل زندگی نے جہاں ہمیں بہت مصروف کردیا ہے وہیں اکثر ہم اپنے جان سے پیارے لوگوں کے لیے وقت نہیں نکال پاتے. اور ان کے لیے پنہاں ہزاروں سوچین اور خواشیں ہمارے دلوں میں ہی رہ جاتی ہیں۔ پھر ایک کاش ہماری ساری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ کہ ہم اس عزیز تر ہستی کو اپنے ہونے کا احساس دلادیتے۔ خاص کر اپنے مان باپ کے لیے جو ساری زندگی اپنی انگلی پکڑ کر ہمیں چلنا سکھاتے ہیں اور جب ہماری انہیں سہارا دینے کی باری آتی ہے تو ہم اپنی دنیا میں اتنے مست ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان کے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔

۔ ایسی ہی ایک تحریر مبشرہ ناز نے لکھی ہے جسے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ کہیں کوئی ادھڑی لیس ہا ٹوٹا ہوا بٹن ہمارا منتظر تو نہیں!

اماں کا دوپٹہ

GetDrawings.com

اماں کے دوپٹے کی ادھڑی لیس از مبشرہ ناز

برآمدے میں پڑے تخت پر دھوپ اپنی ململ جیسی نرم کرنیں پھیلائے بیٹھی تھی ۔۔۔۔آنکھوں کے کٹوروں میں بھری نیند مدہوش کر رہی تھی ۔ کاجل سے لپٹے خواب انگڑائیاں لینے لگے۔ اماں کے دوپٹے کی ادھڑی لیس چند لمحے نیند سے الجھی آنکھوں کو بہلانے کی کوشش کی مگر ململ جیسی دھوپ کے آگے اس کی ایک نہ چلی ۔ جانے کتنی دیر میں سوتی رہی ۔
آنکھ کھلی تو دھوپ اپنی نرم مہربان ململ جیسی کرنیں سلیقے سے تہہ لگائے جانے کو تیار بیٹھی تھی۔ ۔میرے اٹھتے ہی اماں چائے بنا کر لے آئیں۔ چائے پیتے ہوئے میری نظریں پھر اماں کے دوپٹے کی ادھڑی لیس سے الجھنے لگیں ۔ لیس کے ٹانکوں نے دوپٹے پر عمر بھر کی کہانی لکھ رکھی تھی۔ سیدھی شفاف کسی حسین منزل کو جاتی ریل گاڑی کی پٹری جیسے ٹانکے، مگر یہ ادھڑی لیس میرے دل کو کچھ ہونے لگا۔

“۔اماں آپ کے دوپٹے کی لیس ادھڑ گئی ہے”۔” بیٹا کیا کروں سوئی میں دھاگہ نہیں ڈلتا آنکھیں بھی میرے ساتھ ساتھ بوڑھی ہو گئی ہیں”۔۔

“میں ابھی چائے پی کر سی دیتی ہوں”۔اور وہ “ ابھی “ اماں کی دہلیز پر پڑا رہ گیا ۔ چائے پیتے ہی احمر لینے چلے آئے ۔اماں کے دوپٹے کی ادھڑی لیس دل سے لپٹی ساتھ چلی آئی۔۔۔ اگلی بار جاؤں گی تو اماں کے سارے کپڑے مرمت کر آؤں گی۔

پرانی یادیں آنکھوں میں بسائے

اگلی بار گئی تو احمر ساتھ تھے۔۔۔اماں داماد کی خدمتوں میں مصروف ہو گئیں اور ابا احمر سے باتوں میں۔ اماں کے ہاتھ کے آلو والے پراٹھے کھاکر ہم شام سے پہلے ہی گھر چلے آئے! اماں کے دوپٹے کی ادھڑی لیس اس بار بھی دل سے لپٹی ساتھ ہی چلی آئی ۔ گھر کے کام کاج کرتے کئی بار اماں کا دوپٹہ آنکھوں کے سامنے آ کر مجھے بے چین کرتا ۔۔۔میری سلیقے والی اماں بینائی کے سامنے بے بس تھیں ۔ عمر رفتہ کے حسین منظر آنکھوں میں بھرے ہوں اور دل پرانی یادوں سے بہلا رہے تو شاید بینائی کمزور ہی پڑ جایا کرتی ہے۔

 

پرانی یادیں

The Mellor Law Firm

نرم ململ جیسی کرنیں کھدر ہو گئیں

بے چینی بلا وجہ نہیں تھی ۔۔چند ہی دنوں میں دھوپ نے نظریں پھیر لیں نرم ململ جیسی کرنیں کھدر ہو گئیں۔ کل ابا گلابی رومال میں لپٹا بنارسی غرارہ گلابی شیفون کی قمیص اور گلابی گوٹا لگا دوپٹہ مجھے دے گئے۔

“تمہارے بچپن کا یہ جوڑا اب تک تمہاری ماں نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔۔۔۔ مجھے یاد ہے عید پر اس نے تمہارے لیئے سیا تھا ۔ کاموں سے فارغ ہوئی تو لائیٹ چلی گئی مگر اُسے“ تمہیں “عید پر یہ غرارہ ہی پہنانا تھا۔ ساری رات بیٹھی وہ دیے کی روشنی میں تمہارے دوپٹے پر گوٹا لگاتی رہی ۔ وقفے وقفے سے سی کی آواز آتی ۔جانے کتنی بار سوئی گوٹے سے الجھتی ہوئی انگلیوں میں چبھی ہو گی ۔ روشنی بھی تو بہت کم تھی نا ۔ اگلے دن تم تتلی کی طرح سارے گھر میں اُڑی پھر رہیں تھیں ۔ اور تمہاری ماں بھی ۔ وہ تمہیں دیکھ کر بہت خوش تھی۔ اُس دن تم نے پہلی بار غرارہ پہنا تھا”۔ ابا رو دیئےکیا کروں گا میں تمہاری ماں کے بغیر ۔۔ اور تڑپ تڑپ کر روتی میں ابا کو بتا ہی نہیں پائی۔

مزید پڑھیے: کیا آپ جانتے ہیں روزانہ جنت کی قیمت اور حج کیسے ادا کیا جاسکتا ہے؟

چند ٹانکے ہی تو تھے

میں بتانا چاہتی تھی ۔”ابا ۔۔۔! اماں کے دوپٹے کی لیس ادھڑ گئی تھی، ادھڑی لیس خسارے سی لگنے لگی تھی ۔۔سیدھے شفاف ٹانکوں سے لکھی زندگی کی داستان ختم ہونے کو ہے کاش جان پاتی۔ میں سی ہی نہیں پائی ابا ۔۔ چند ٹانکے ہی تو تھے بھر نہ پائی ۔۔!
میرے سارے جسم میں سوئیاں چُبھ گئی ہیں ابا ۔۔ روح فگار ہے
مجھے بتائیں ابا میں کیا کروں میں کہاں جاؤں ۔۔۔۔ اماں کے دوپٹے کی ادھڑی لیس میرے دل سے لپٹی آہ و زاریاں کرتی ہے!!

To Top