عاصمہ جہانگیر کا جرم اتنا بڑا تھا کہ اس کو اللہ تو معاف کر دے بندے نہیں معاف کریں گے

گیارہ فروری 2018 پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جاۓ گا آج پاکستان کو نجات مل گئي اس عاصمہ جہانگیر سے جس نے سب مردوں کی ناک ميں دم کر رکھا تھا ۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بنی پھرتی تھی اچھا ہوا کہ مر گئی ورنہ کسی نہ کسی کو اس کو مار ہی ڈالنا پڑتا ۔


ابھی وکیل بنی تو تیسرے ہی برس مشرقی پاکستان میں فوجی دخل اندازی نامنظور کے پلے کارڈ لیۓ 1971 میں تنہا نکل پڑی سب نے سمجھایا کہ مغربی پاکستان کی ہو کر مشرقی پاکستان کا درد دل میں لیۓ کیوں پھر رہی ہو ۔ یقینا بھارتی ایجنٹ ہو مگر اس جری عورت کو یہ سمجھ کہاں ؟ سمجھ ہوتی تو اس پلے کارڈ کو چھوڑتی اور کوئی وزارت سنبھال لیتی ۔

پھر یحیحی خان کی ڈکٹیٹر شپ کے دور میں اپنے والد کی نظر بندی کے خلاف کیس اس وقت کے ڈکٹیٹر پر قائم کر بیٹھیں جب ساری دنیا اس ڈکٹیٹر کی جے جے کار میں لگا تھا وہ اس کو غاصب کہہ کر پکار رہی تھیں ایسی عورتوں کی سزا تو جیل کی کال کوٹھڑی ہی ہونی تھی ۔ مگر یہ کیسی عورت تھی کہ جیل سے بھی نہیں ڈری اور ضیا الحق کے خلاف بھی سڑکوں پر نکل پڑی ۔

اب تو لوگوں نے بھی پہچاننا شروع کر دیا تھا کہ کوئی تو ہے جو اس طرح آواز اٹھاتی ہے نتیجہ وہی 1983 میں ایک بار پھر جیل کی کال کوٹھڑی نصیب ٹہری اور وقت کا فرعون ایک عورت سے ڈر گیا اور اس کو جیل بھجوا دیا ۔

اب جب جمہوریت آگئی تو اس کے دل کا درد کم نہ ہوا پاکستان میں انسانی حقوق کا کمیشن بنا بیٹھیں اور پاکستانی عورتوں کو بھی انسان ثابت کرنے پر تل گئیں قصور بڑا تھا سو اس بار سزا بھی اتنی ہی بڑی ملی سگریٹ نوشی کرتی ہوئی تصویریں سامنے لا کر عورتوں کو ہی اس بات پر مجبور کیا گیا کہ اس عورت کو ملامت کریں جو سگریٹ پی رہی ہے یہ نہ دیکھا گیا کہ وہ ان عورتوں کے ہی حقوق کے لیۓ آواز اٹھا رہی ہیں جن کو کبھی تو تیزاب سے جلایا جاتا ہے اور کبھی لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے پیٹا جاتاہے ۔

عاصمہ جہانگیر سے یہ بھی برداشت نہ ہوا اور عورتوں کو لے کر سڑکوں پر نکل آئیں کہ اپنے حقوق مانگ سکیں نتیجے میں ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں مگر ان کی آواز کو چپ نہ کروایا جا سکا ۔ایک بار پھر پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف وہ سڑکوں پر نکلیں اس بار ان کے ساتھ عدلیہ بحالی کی تحریک میں سارے مرد ساتھ تھے ۔

تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی مگر عاصمہ جہانگیر اب بھی اصولوں پر ڈٹ گئیں ۔ اب وہ افتخار چوہدری کے مدمقابل تھیں ۔اسی افتخار چوہدری کے مقابل جس کی بحالی کی تحریک انہوں نے خود چلائی تھی ۔وہ شخصیت پرست جو نہ تھیں تبھی تو اصولوں پر سمجھوتہ نہ کر پائیں ۔

اس کی سزا ان کو اس معاشرے کی جانب سے ہر وقت بھگتنی پڑی مگر ان کو اس کی پروا بھی نہ تھی جب تک زندہ رہیں معاشرے کے ہر ٹھیکیدار سے ٹکراتی رہیں آخری کیس جو انہوں نے قبول کیا وہ طلال چوہدری کا تھا

جس کو قبول کرنے کی واحد وجہ یہی تھی کہ وہ اظہار راے کو سب کا بنیادی حق سمجھتی تھیں آواز دبانے کو وہ انسانی فکر کی موت سمجھتی تھیں تبھی اللہ نے ان کو کسی کا محتاج نہ کیا آج ان کا وقت رخصت ہے پاکستانی معاشرے پر ان کا سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں کو ایک سوچ ایک فکر سے آراستہ کر گئیں ۔

اور آخری کیل جو ان کے تابوت میں ٹھوکی گئی وہ تمام مذہبی رہنماؤں کی جانب سے ان کے جنازے میں عورتوں کی شرکت تھی ۔انہی عورتوں کی شرکت جن کے حقوق کے لیۓ وہ تمام عمر آواز اٹھاتی رہیں وہ جب اپنی قائد کو الوداع کہنے پہنچیں تو سب کو اعتراض ہو گۓ اس بارے میں مفتی عبدالنعیم کا کیا کہنا تھا آپ خود دیکھ لیں

ان کے نزدیک جنازہ جائز ہے عورتوں کی ان کے جنازے میں شرکت بھی لوگ عاصمہ جہانگیر کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں حالانگہ انہوں نے تو کسی عورت کو نہیں کہا کہ میرے جنازے میں آؤ مگر پھر بھی اس سب کا وبال مرنے کے بعد بھی انہی کے گلے میں ڈال دیا گیا

To Top