’میں وی ہن عدالت آگئی آں۔ ہن میں تینوں ویکھاں گی۔‘

عاصمہ جہانگیر جو بڑی بڑی خواہشیں رکھتی تھیں وہ چاہتیں  تو دنیا کے کسی بھی ملک کی شہریت حاصل کر لیتیں اور وہاں چین کی زندگی گزار کر ایک بڑا بینک بیلنس بنا لیتیں مگر ان کے سر پر تو اس ملک کو سنوارنے کا سودا سوار تھا ۔پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا قیام ان کا خواب تھا ۔


اسی وجہ سے کبھی تو وہ پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے آگے کھڑی ہوئیں اور آزاد عدلیہ کی تحریک کے ہراول دستے میں شامل ہوئیں اور جب افتخار چوہدری نے غلط اقدامات کیۓ تو ان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ۔

ان کے نزدیک شخصیت سے زیادہ اہم اصول تھے اسی سبب ان کا بارہا ٹکراؤ ریاست کے طاقتور ترین ستونوں سے رہا ۔ان کی شہرت  کا آغاذ ضیا الحق کے خلاف جمہوریت کی تحریک سے ہوا 1983 میں پہلی بار ضیا الحق نے ان کو جیل بھیجا اس کے بعد وہ ایک ایسی خاتون رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں جو کسی سیاسی جماعت سے نہ ہوتے ہوۓ بھی ہر ایک کے حقوق کی بات کرتی تھیں ۔

وہ بڑی بڑی باتیں نہیں کرتی تھیں البتہ بڑے بڑے کام کرتی تھیں ان کا خواب تھا کہ پاکستان کی عورت جہاں بھی ہو اتنی مضبوط ضرور ہو جاۓ کہ اس کے حقوق کوئی غضب نہ کر سکے اسی وجہ سے ایک بار جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی زندگی کا سب سے یادگار لمحہ کون سا تھا تو انہوں نے اس موقعے پر یہ نہیں بتایا کہ ان کو جب رائیٹ لولی ہوڈ ایوارڈ، فریڈم ایوارڈ، ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، اور یونیسکو پرائز، مارٹن اینیلز ایوارڈ  سے نوازا گیا تو وہ ان کی زندگی کا یادگار لمحہ تھا

بلکہ ان کا کہنا تھا کہ ایک مزدور عورت کا شوہر اس پر ظلم کرتا تھا اور وہ محنت مزدوری کے ساتھ اس طلم کو بھی اپنی تقدیر کا لکھا سمجھ کر برداشت کرتی تھی مگر عاصمہ جہانگیر کے سمجھانے پر اس نے اپنے شوہر کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ اس کو عدالت میں بھی بلوایا ۔جب وہ آدمی عدالت آیا تو اس عورت نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر اس آدمی کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا کہ ’میں وی ہن عدالت آگئی آں۔ ہن میں تینوں ویکھاں گی۔‘

اور یہی لمحہ عاصمہ جہانگیر کی زندگی کا یادگار ترین لمحہ تھا ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت کی مضبوطی ان کا کتنا بڑا خواب تھی ۔وہ معاشرے کی کمزور عورت کو طاقتور دیکھنا چاہتی تھیں جو معاشرے کے طاقتور مردوں کو منظور نہ تھا اسی سبب کبھی ان کو بھارت کا ایجنٹ کہا گیا اور کبھی بد کردار عورت اسی سبب وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ان کو معاشرے میں غنڈہ آف وومن کے خطاب سے پکارا جانا پسند ہے

آج پاکستان کی عورتیں ایک ایسی آواز سے محروم ہو گئیں جو جب بھی اٹھی ان کے حقوق کی آواز کے لیۓ اٹھی مگر جس کی تقلید کرنے والی عورتوں کو بھی اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کھل کر رو سکیں کہ آج انہوں نے کیا کھو دیا

 

To Top