الیکشن 2018 میں الیکشن کمیشن نے ماضی کی اسمبلی کی تجاویز کی بنیاد پر اپنے قوانین میں کئي تبدیلیاں کی ہیں اس مین سب سےاہم اقدام دھاندلی کو روکنے کے لیۓ کیۓ گۓ اور الیکشن کمیشن کے مطابق اس بار وہ تمام اقدامات کیۓ گۓ ہیں جن کے ذریعے ماضی میں الیکشن کا انعقاد مشکوک قرار دیا گیا تھا
[adinserter block= “3”]
ایک اہم قدم جو الیکشن کمیشن کی جانب سے اس بار اٹھایا گیا ہے وہ ہر سیاسی پارٹی کے لیۓ پانچ فی صد تک خواتین امیدواروں کو براہ راست الیکشن میں لازمی کھڑا کرنے کی شرط ہے خواتین جو کہ پاکستان کی آبادی کا 51 فی صد ہیں ان کو عام طور پر کوئی بھی سیاسی پارٹی براہ راست الیکشن میں اس لیۓ کھڑا نہیں کرتی
سیاسی جماعتوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ عام طور پر لوگ عورتوں کو اپنا نمائندہ چنتے ہوۓ تزبزب کا شکار ہوتے ہیں مگر اب الیکشن کمیشن کی جانب سے اس کو لازم قرار دینے کے سبب ان کو عورتوں کو ہر حالت میں الیکشن میں کھڑا کرنا لازم ہو گیا ہے
اس حوالے سے سب سے زیادہ مشکلات کا شکار وہ اسلامی جماعتیں اور تحریک لبیک پاکستان ہوئی ہیں جو قانون سازی میں عورت کے کردار کو تسلیم کرنےکے لیۓ تیار نہیں ہوتے مگر اب ان کو بھی عورتوں کو الیکشن میں نہ صرف کھڑا کرنا پڑا ہے بلکہ ان کے لیۓ کیمپین بھی چلانی پڑی ہے
اس حوالے سے حالیہ دنوں میں تحریک لبیک یا رسول اللہ پارٹی کے کچھ پوسٹر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہے ہیں جس میں انہوں نے خواتین امیدواروں کو کھڑا تو کر دیا ہے مگر الیکشن پوسٹرز میں ان کی تصاویر لگانے سے اجتناب برتا ہے اور اس کے لیۓ انہوں نے ایک درمیانا راستہ اختیار کیا ہے
جس میں تحریک لبیک پاکستان نے ان خواتین کے تصاویر کے بجاۓ صرف ان کے خاکے لگانے پر ہی اکتفا کیا ہے جس میں حجاب کے اندر ایک خاتون موجود ہیں اور اس خاکے کے نیچے اس خاتون کا نام لکھ دیا گیا ہے تاکہ حجت تمام کی جاسکے اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس حکم کے بعد کتنی خواتین اسمبلی کا حصہ بن سکتی ہیں
[adinserter block= “15”]
بہرحال اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا یہ اقدام قابل تعریف ہے کہ اس نے پاکستان کی ایک بڑی تعداد کا نہ صرف خیال رکھا ہے بلکہ ان کو یہ موقع بھی دیا ہے کہ وہ اسمبلیوں میں جا کر اپنے حق کے لیۓ نہ صرف آواز اٹھا سکیں بلکہ اپنے لیے ہونے والی قانون سازی کا حصہ بھی بن سکیں
