آخر پاکستانی نوجوان نسل علم حاصل کرنے کے بجائے ڈگریوں کے حصول میں کیوں الجھ گئی ہے؟

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

علم شعور و آگہی کا جادہ ء پر نور ہے۔علم وہ ضو ہے جو دلوں کو منور اور روحیں کو بیدار کرتی ہے۔علم سلسبیل ادراک بن کر ابن آدم کو اوج ثریا تک پہچانا ہے۔اگر ہم ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اسلام نے خواندگی کی قندیل اصحاب صفہ کی شکل میں روشن کی یعنی اسلام خواندگ کا با شعور راستہ بنا۔

تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان کبھی بھی جدید علوم سے پیچھے نہیں رہے۔آج بھی یورپ کی یونیورسٹیوں میں مسلمانوں کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ مگر آج ایک مسلم امہ ہو کہ ہمارا نظام تعلیم دن بہ دن زوال پذیر ہوا جاتا ہے۔ کیوں؟؟ اگر پاکستان میں حکومت اور تعلیم ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی جو سماجی ارتقاء کا شعور رکھتے ہیں تو انکو معلوم ہوتا کہ معاشرہ جو اس وقت علم و فن کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں، انکو یہاں تک پہچانے میں آزادئ افکار و اظہار نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

افسوس کی بات یہ ھے کہ پاکستان کی تاریخ میں بہت کم کسی ماہر تعلیم کو تعلیمی پالیسی کا سربراہ بنایا گیا۔اکثر یہ کام جج اور فوجی صاحبان کو دیا جاتا رہا۔ ہمارے ہاں طبقاتی طرز تعلیم کے ہمارے تعلیم کے نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔۔حالانکہ چاہیئے یہ تھا کہ یہاں ایک ایسا نظام تعلیم وضع کیا جاتا جو طبقاتی تقسیم پیدا کرنے کی بجائے وحدت مسلم اور اسلام کے حقیقی اصولوں پہ زندگی بسر کرنے کا سبق دیتا۔

تعلیم صرف پیسے کمانے کے لئے نہیں حاصل کی جاتی تعلیم کا اصل مقصد کردار سازی ہے۔ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق “علم تلوار سے بھی طاقتور ہوتا ہے جانئیے اور علم حاصل کیجئے” علم اور تعلیم میں کیا فرق ہے؟ تعلیم حاصل کرنا صرف روزگار حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ تعلیم کا مقصد قوم کے افراد کو با شعور بنانا ہے ۔

شخصیت کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب انسان اپنے اور اپنے معاشرے کے حقائق کو سمجھے اور ایک فائدہ مند فرد بن کے دکھائے ۔ اب اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم طبقات اور مفادات کو بھلا کر علم کی روشنیاں ہر جگہ بکھیریں فرقہ واریت اور فرسودہ سوچ سے آذادی اسی صورت ممکن ہے کے ہم صاف شفاف اسلام کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیم دیں تاکہ آنے والی نسلوں کو ہم ایک مستحکم پاکستان دے سکیں۔

To Top