صرف نوٹس لینے سے کام نہیں چلے گا، ایکشن لینا ہوگا

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

اسے بیٹھے ہوئے ایک گھنٹا گزر چکا تھا، اضطراب اس کے چہرے پر عیاں تھا، وہ بار بار نظر گھما کر سپاہی کو دیکھتا اور ہر بار سپاہی اسے انتظار کا اشارہ کرتا، لیکن آخر کب تک وہ انتظار کی سولی پر لٹکا رہتا۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگا، وہ اٹھا اور سیدھا پولیس افسر کے کمرے  میں پہنچ گیا۔

اس کے پیچھے سپاہی بھاگتا ہوا آیا، اوے تجھے سمجھ نہیں آتا کہ صاحب مصروف ہیں۔ اور واقعی صاحب کسی دوشیزہ سے فون پر باتیں کرنے میں مصروف تھے، اسے دیکھتے ہی فون بند کردیا اور بولے تمہیں کسی نے تمیز نہیں سکھائی کہ پولیس سے کس طرح پیش آنا چاہئے؟باہر جا کر انتظار کرو وہ ان کی باتیں سن کر آگ بگولہ ہوگیا، میری بیٹی صبح سے لاپتا ہے، اب شام ہوگئی ہے، میں اسے ہرجگہ تلاش کرچکا ہوں لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ صبح یہ کہہ کر گھر سے نکلی تھی کہ سلما آنٹی کے گھر جارہی ہوں ابھی تک نہیں لوٹی ، میری سانسیں رکی ہوئی ہیں اور آپ کہ رہے ہیں باہر جا کر انتظار کرو ۔

وہ بھڑک اٹھا،اس کا بھڑکنا جائز بھی تھا، آخراس  کی بیٹی صبح سے لاپتا تھی۔ پولیس افسر یک دم چونکا، اس نے فورا سپاہی کو رپورٹ لکھنے کا کہااور اس شخص کوپولیس کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔


سر آپ کو واقعی اس کی بیٹی کا اتنا خیال ہے؟ ارے نہیں پاگل، شکر ہے چلا گیا، جان چھوٹی سر آپ ایسا کیوں کہہ رہے کہ آپ نے ہی تو ابھی اسے مدد کی یقین دہانی کرائی ہے. یقین تو دلانا پڑے گا ناکہیں ہم بھی سسپینڈ نہ ہوجائیں، ویسے بھی اگر سسپینڈ ہو بھی گئے تو کچھ عرصہ بعد دوبارہ کھاتا کھل جائے گا اور زیادہ سے زیادہ وزیراعظم نوٹس لے لیں گے۔

زینب کے واقعے کے بعدمزید دو واقعات پیں آچکے ہیں، لیکن اس کے باجود حکومتی سطح پر کوئی خاطر خواہ کارروائی نہ ہوسکی۔ پاکستان کی نامور اداکارہ وینا ملک اور صبا قمر بھی زینب کے ساتھ ہونی والی زیادتی اور حکومتی غٖلت پر بھرک اٹھیں ، ان کا کہنا تھا کہ حکومتی سطح پر بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اس طرح کے واقعات کو دبانا چاہتے ہیں، اب ہمیں خود آگے بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا ۔

صدر نے نوٹس لے لیا,وزیراعظم نے نوٹس کے لیا,صوبائی وزرا نے نوٹس لے لیا,سیاسی رہنما ؤں نے بھی نوٹس کے لیا,اب توسوشل میڈیا پر بھی ٹرینڈ چل گیا.انسانی حقوق کے تنظیموں ، شوبز اور کرکٹ کے ستاروں نے بھی احتجاج ریکارڈ کرادیا، اب کیا رہ گیا؟ قانونی کارروائی، وہ بھی کبھی نہ کبھی مکمل ہوہی جائے گی۔

وزیراعظم سمیت کسی بھی حکومتی عہدیدار اور حکام بالاکا کسی بھی واقعے اور سانحے پر نوٹس لینا ہمارے ملک میں معمول کی بات ہے۔اگرانکی جانب سے نوٹس نہیں لیا جاتاتوپھر ہم از خود نوٹس کا شورسنتے ہیں۔

تاہم اس کا بھی فوری اور مؤثرنتیجہ یوں نہیں نکلتا کہ کسی بھی کیس سے براہِ راست منسلک اداروں جیسے پولیس اور تحقیقاتی ادارے اور دیگر متعلقہ لوگ اور محکمے حیلے بہانے اور کیس کو کمزور بنانے میں ماہر ہیں۔ تاہم عدالتوں نے کئی کیسز میں انصاف دلوانے کی کوشش کی ہے مگر جب ہم صوبے کے حکمرانوں اور اعلی حکام کے نوٹس کی بات کریں تو یہ محض دکھاوا اور نمائش ثابت ہوئے ہیں۔

عوام کا دباؤ اور سماجی تنظیموں کا احتجاج ہوتا ہے تو وزیراور مشیر سبھی واقعے اور سانحے کا نوٹس لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کسی کا قتل ہوا ہو یا کسی کے ساتھ مالی فراڈ اور دوسرے المناک اور روح فرسا واقعات بھی دیکھ لیں بات نوٹس لینے اور ذمہ داروں کا تعین کئے بغیر چند اہم عہدیداروں کو فارغ کرنے سے آگے نہیں بڑھی۔

اس کی مثالیں دی جائیں تو شاید کاغذ کے کاغذ سیاہ ہو جائیں۔ کبھی کوئی پولیس والا معطل ہوا تو کہیں کسی افسوسناک واقعے کے بعد وزیراعظم یا وزیراعلی نے ایم ڈی، ڈی جی جیسے اہم ترین عہدیداروں کو فارغ کر دیا۔ سیاستدانوں کا تو وطیرہ ہی ہے کہ جب کوئی سانحہ رونما ہو جائے تو وہ اپنی سیاست چمکانے کے لیے نہ صرف متاثرہ خاندان کے گھر پہنچ جاتے ہیں بلکہ خود بھی حکومت اور عدالت سے اس کا نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہیں۔  ایسے میں ہمیں خود اٹھ کر  کچھ کرنا ہوگا کیونکہ اب صرف نوٹس لینے سے کام نہیں چلے گا۔

To Top