مسجد نبوی میں ایک اسرائیلی یہودی کی موجودگی سعودی حکومت کے لۓ ایک سوال ؟

مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ مسلمانوں کے مقدس شہر ہیں جہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے ۔ سعودی حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ کوئی غیر مسلم مسلمانوں کے ان مقدس مقامات پر داخل نہ ہو سکے ۔

مگر حال ہی میں ایک 31 سالہ اسرائیلی یہودی بین سیون نے اپنے سوشل میڈیا  اکاونٹس کے ذریعے ایران ، لبنان ،اردن اور سعودی عرب کی مقدس مقامات کی تصویریں شئیر کی ہیں جہاں نہ صرف وہ مسلمانوں کے حلیۓ میں داخل ہوا بلکہ اس نے وہاں پر تصویریں بھی بنائیں ۔

انہوں نے یہ تصویریں سوشل میڈیا پر اپنے فیس بک اکاونٹ اور انسٹا گرام اکاونٹ سے شئیر کیں ۔مگر مسلمانوں کے شدید ردعمل کو دیکھتے ہوۓ ان کا انسٹا گرام اکاونٹ عارضی طور پر معطل کر دیا گیا جس کو بعد میں بحال کر دیا گیا ۔بین سیون کی ان تصاویر پر مسلمانوں کی جانب سے ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ  Zionist at the Prophet’s Mosque کے ساتھ ٹرینڈ ہوتا رہا ۔

 

ایک یہودی  کی موجودگی پر مسلمانوں نے سعودی حکومت پر سوال اٹھایا کہ انہوں نے قطر کے مسلمانوں پر تو ان مقدس شہروں کی زیارت پر پابندی لگا رکھی ہے ۔جب کہ یہودی کھلے عام گھوم رہے ہیں ۔ اس عمل سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ سعودی حکومت کے اسرائیلی ریاستوں سے نہ صرف خفیہ تعلقات ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خفیہ طور پر ان کے شہریوں کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں داخلے کی بھی اجازت ہے ۔

بین سیون نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ اس نے ان مقامات پر اپنی شناخت کو پوشیدہ نہیں رکھا ۔ اور اس بات کا ثبوت اس کا وہ بیگ ہے جس پر اس کا نام لکھا ہوا ہے ۔ اور ان علاقوں کے لوگوں نے اس کی شناخت جاننے کے باوجود کسی قسم کے منفی رویے کا اظہار نہیں کیا ۔ اور انہوں نے اس کو خوش آمدید کہا ۔

 

اسرائیلی یہودی بین سیون نے ٹائمز آف اسرائیل کو انٹرویو دیتے ہوۓ بتایا کہ ان کا یہ دورہ کسی بھی مذہب کے لوگوں کی دل آزاری کرنے کے لیے نہیں تھا ۔میں عرب لوگوں اور ان کے مذہب کا احترام کرتا ہوں اور میرا پیغام یہ ہے کہ تمام مذاہب اور ثقافتوں کا احترام کیا جاۓ ۔

بہرحال یہودی بین سیون کا نقطہ نظر کچھ بھی ہو، مگر اس کی مسلمانوں کے مقدس مقامات پر موجودگی نے ان مقدس مقامات کی سیکیورٹی اور انتظامات پر پوری مسلم امہ کی جانب سے سعودی حکومت کے لۓ ایک سوال اٹھا دیاگيا ہے ۔

To Top