کیا آپ نے بھی اپنے والدین کے ساتھ بچپن میں یہ جھوٹ بولے تھے

بچپن ایک سنہری دور ہوتا ہے جب انسان فکر سے آزاد ہوتا ہے ۔اس دور میں انسان کے پیش نظر وقتی فائدہ ہوتا ہے ۔اس فائدے کے حصول کے لۓ بچپن میں ماں باپ اور استادوں کے ساتھ چھوٹے موٹے جھوٹ ہم سب ہی بولتے ہیں ۔بڑے ہونے کے بعد وہی جھوٹ جب یاد آتے ہیں تو چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ بکھر جاتی ہے ۔

پیٹ کے درد کا بہانہ

یہ وہ مشہور و معروف جھوٹ ہے جو ہم میں سے سب نے عمر کے کسی نہ کسی حصے میں اپنے والدین سے بولا ہو گا ۔عموما یہ جھوٹ گھر پر اسکول جانے کے اوقات میں بولا جاتا ہے ۔اور اسکول میں اس جھوٹے درد کا آغاز اس ٹیچر کے پیریڈ کے ساتھ شروع ہوتا ہے جس نے ٹیسٹ لینا ہوتا ہے ۔

جیب سے پیسے گر گۓ تھے

والدین کے منگواۓ گۓ سودے کے بقایا پیسوں کو ویسے تو بچے اپنا حق سمجھ کر واپس نہیں کرتے لیکن اگر کبھی واپسی کا تقاضا شدت اختیار کر جاتا تھا تو جیب سے گر گۓ یہ کہہ کر جان چھڑانا تو ہم سے کو یاد ہی ہو گا ۔

دوست کے گھر کاپی لینے جانا ہے

یہ وہ عالمی بہانہ ہے جو ہر بچہ گھر سے باہر جانے کے لۓ استعمال کرتا ہے ۔ مگر اکثر اوقات میں یہ بہانہ ناکام بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ جس دوست کا نام لے کر آپ گھر سے نکلے ہوتے ہیں وہ خود ہی کاپی دینے آپ کے گھر آجاتا ہے اور اس کے بعد پڑنے والی پھٹکار ناقابل بیان ہوتی ہے ۔

آج وین والا نہیں آیا تھا

اسکول اور دوستوں کی صحبت چھوڑ کر گھر واپس آنے کا دل نہیں ہوتا اس لۓ وین مس کرنے کے بعد گھر والوں کو یہ بتانا کہ آج وین والا نہیں آیا تھا اس وجہ سے پیدل خوار ہو کر آنا پڑا تبھی لیٹ ہو گۓ ۔یہ الگ بات ہے کہ اگلے ہی دن وین والا امی کو بتا دیتا تھا کہ وہ ہمیں واپسی پر ڈھونڈتا رہا ہم اس کو کہیں نہیں ملے تھے ۔

آج ٹیسٹ نہیں ہوا

ٹیسٹ کاپی میں کم نمبر دکھانے سے بہتر ہوتا تھا کہ یہ  دیا جاۓ کہ آج ٹیچر نہیں آئی تھیں اس وجہ سے ٹیسٹ ہی نہیں ہوا اور پھر امی ابو کہ جعلی دستخط کر کے ٹیچر کو ٹیسٹ کاپی دکھانے کا جھوٹ تو سب ہی نے کبھی نہ کبھی بولا ہو گا

بچپن کے یہ بے ضرر جھوٹ میٹھی یادوں کی طرح ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور جب یہی جھوٹ ہمارے بچے ہم سے بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو فورا پکڑے جاتے ہیں ۔

To Top