شیکسپئر نے سیون ایجز آف مین لکھا تو اس کے گمان میں یقینا مرد اور عورت کے لۓ یکساں خیالات ہوں گے، تبھی تمام لوگوں نے اس کو انسانی حیات کے سات ادوار قرار دیئے مگر جب ہم مشرقی عورت کی زندگی کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں تو شیکسپئر کی روح سے معزرت کے ساتھ ہم کچھ ترمیم کرنے میں خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں ۔
پیدائش کا دور
جب وہ پیدا ہوتی ہے تو اس کا استقبال ایک ان چاہے فرد کی صورت میں کیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی اس پیدائش پر مبارکباد دے دے یا پھر مٹھائی کا تقاضا کر لے تو اس کا منہ یہ کہہ کر بند کروا دیا جاتا ہے کہ ہم بیٹیوں کی پیدائش پر مٹھائیاں نہیں بانٹتے ۔
واحد ہستی جو اس کو اپنے سینے سے لگاتی ہے وہ اس کی ماں ہوتی ہے ۔گھنٹوں دودھ کے انتظار میں حلق پھاڑ کر روتے گزرتا ہے مگر ماں کو اس کے پیدا کرنے کے جرمانے کی صورت میں،گھر میں اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لۓ، اس کے بجاۓ گھر کے کاموں کو فوقیت دینی پڑتی ہے ۔
بچپن کا دور
روتے کرلاتے وہ اب اس قابل ہو جاتی ہے جب کہ اس کے ہاتھ میں سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی تھما دیا جاۓ تو وہ اس سے اپنا پیٹ بھر لیتی ہے ۔ دوسروں کی اترن پہن کر اور بیماری کی حالت میں بغیر دوا کے خود ہی لوٹ پوٹ کر ٹھیک ہو تے مشرقی عورت کی زندگی کا یہ دور بھی گزر جاتا ہے
لڑکپن کا دور
اس دور میں اس کے نصیب میں بھائی کی بچی ہوئی آدھی غذا ہوتی ہے اور گھر بھر کے سارے چھوٹے چھوٹے کام اس کے ذمے لگ جاتے ہیں ۔ اگر گھر والے خود کو باشعور ثابت کرنا چاہ رہے ہوں تو اس کا داخلہ کسی چھوٹے موٹے اسکول میں کروا دیا جاتا ہے ۔ مگر گھر آکر پڑھنے کا موقعہ نہیں فراہم کیا جاتا ۔ آخر لڑکی کام نہیں کرے گی تو کیا اس سے آفیسری کرانی ہے ۔
جوانی کا دور
مشرقی عورت کی زندگی کا یہ دور اس کے لۓ سب سے دشوار ہوتا ہے ۔ عمر کے تقاضوں کی وجہ سے آنکھیں خواب دیکھنا چاہتی ہیں مگر ان خوابوں پر پہرے بٹھا دیئے جاتے ہیں اور پھر اپنے کندھے کے اس بوجھ کو کسی اور کندھے پر ڈال دیا جاتا ہے یہ دیکھے بغیر کہ وہ اس کا اہل بھی ہے یا نہیں ۔
اب اس کے کاندھوں پر ایک اضافی ذمہ داری بھی آجاتی ہے اور وہ ہوتی ہے اپنے تھکے وجود کے ساتھ رات کو اپنے مالک کا دل بہلانے کی، اس کے انعام کے طور پر اس کو ماں کا درجہ ملتا ہے پیدا ہونے والا اگر بیٹا ہو گا تو اب اس کو اس کی بھی غلامی کرنی پڑے گی اور اگر بیٹی کو پیدا کرنے کا جرم کیا ہو گا تو سزا اور سخت ہو جاۓ گی
ادھیڑ عمری کا دور
اس دور میں وہ اپنے حوصلوں سے زیادہ تھک چکی ہوتی ہے ۔ مگر اب بھی اس کے امتحان کا خاتمہ نہیں ہوتا اب امتحان لینے والا کوئی اور نہیں اس کا اپنا خون، اپنا بیٹا ہوتا ہے ۔ اب وہ اس کی محتاج ہوتی ہے ساری عمر کی ریاضت کے باوجود اس کا اپنا گھر کوئی نہیں ہوتا ۔
بڑھاپے کا دور
اب اس کی طاقت ختم ہو چکی ہوتی ہے اس کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح کو بھی آرام کی خواہش ہوتی ہے نتیجے میں اس کی حیثیت اب ایک ناکارہ پرزے کی ہوتی ہے جو کسی کام کا نہیں ہوتا لہزا کسی کو اب اس کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ کسی کے پاس اس کے لۓ وقت نہیں ہوتا
موت، ابدی دور
اور آخر کار اس کی زندگی کا خاتمہ اس ڈر کے ساتھ ہو جاتا ہے کہ اگر شوہر نے معاف نہ کیا تو مرنے کے بعد بھی جہنم ہی ٹھکانہ ہو گا ۔
مائرہ خان کے نۓ فوٹو شوٹ میں پانچ ایسی کون سی باتیں ہیں جو سب کو چونکا دیں