کیا یورپ جانے کے خواب دیکھنے کی سزا اتنی بری ہوگی سوچا نہ تھا

گجرات کے چھوٹے سے گاؤں میں پانچ دوست تھے ۔ جن کا نام  دانش، قاسم، ثاقب، عثمان اور بدرمنیرتھا ۔ نام کوئی بھی ہو نام میں کیا رکھا ہے۔ اصل اہمیت تو اس کہانی کی ہے جو ان جیسے بہت سارے نوجوانوں کی تھی۔ غربت کی کہانی ، اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ پانچوں نوجوان اپنے ملک میں ایسی کوئی بھی نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہے جس سے وہ اپنے گھر والوں کی غربت کا خاتمہ کر سکیں ۔

ان میں سے کسی کے باپ نے زمینیں رہن رکھ کر اس کی پڑھائی کے لۓ قرضہ لیا ہوا تھا۔ کسی کی بہنوں کی شادی جہیز نہ ہونے کے سبب نہیں ہو پارہی تھی۔ اور وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ اپنے ملک میں رہتے ہوۓ اگلے دس سالوں تک جہیز بنانا ناممکن نظر آرہا تھا۔ کسی کی ماں بیمار تھی اس کے علاج کے لۓ پیسوں کی ضرورت تھی ۔

الگ الگ کہانیوں میں ایک قدر مشترک تھی اور وہ تھی ان کی غربت ، جس کو مٹانے کے لۓ وہ سب خواب دیکھا کرتے تھے۔ ان ہی کے گاؤں کا ایک شخص اپنے بیٹے کو یورپ بھجوا کر بڑے فخر سے اس کے پیسوں پر عیش کر رہا تھا۔ انہوں نے اس آدمی کی منت سماجت کر کے اس کو اس بات پر قائل کیا۔ کہ وہ ان کو بھی کسی ایجنٹ کے ہاتھ یورپ بھجوا دے تاکہ وہ اپنے گھر والوں کے لۓ کچھ کر سکیں۔

ایجنٹ نے فی کس ڈیڑھ لاکھ کا تقاضا کیا جس کو انہوں نے بہت مشکلوں سے پورا کیا ، کسی نے اپنے گھر کے مویشی بیچے تو کسی نے اپنی بہنوں کا زیور ، کسی نے اچھے دنوں کے آسرے میں قرضہ لیا اور اس طرح ایجنٹ کو جیسے تیسے ساڑھے سات لاکھ جمع کر کے دے دیا۔ ایجنٹ نے انہیں بلوچستان کے راستے سے ایران اور پھر وہاں سے ترکی اور آخر کار ان کی منزل جرمنی تک پہنچانا تھا۔

منزل ان دیکھی تھی، اور خواب بہت بڑے اس طرح یہ پانچ نوجوان گھر والوں کی دعاؤں اور فرمائشوں کے ساۓ میں یورپ جانے کے لۓ گھر سے روانہ ہوۓ ۔ بذریعہ کوچ بلوچستان پہنچ کر انہوں نے اپنے گھر والوں کو اپنی خیریت سے آگاہ کیا اور اپنی تصاویر بھی بھیجیں ۔ انہیں یقین تھا کہ ابھی تو وہ اپنےہی ملک میں ہیں انہیں کوئی خطرہ نہیں ۔

اگلے سفر کے لۓ انہوں نے اپنے ماں باپ سے دعاؤں کی درخواست کی ۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ انہوں نے تو یہی سن رکھا تھا کہ دہشت گرد اب بھاگ چکے ہیں۔ بلوچستان کے حالا ت حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ ان کے اپنے ملک ہی میں ان کے خون کے پیاسے موجود ہیں۔

گجرات کے اس گاؤں کے لوگوں کو جب پندرہ لوگوں کے بلوچستان میں مارے جانے کی خبر ملی تو ان کے ماں باپ کی دعاؤں کا دورانیہ اور لمبا ہوگیا ۔ انہیں فکر تھی کہ ان کے بڑھاپے کا سرمایہ اپنی منزل مقصود تک سلامتی سے پہنچ جاۓ ۔ ہر آہٹ پر وہ چونک جاتے تھے ۔ اور پھر تربت سے آنے والی ایک فون کال نے ان کے گھروں میں بھی صف ماتم بچھا دی ۔

وہ پانچوں دوست جو اپنے گھر والوں کی قسمت بدلنے کے خواب لۓ اپنے گھروں سے اکٹھے ہی نکلے تھے ۔ان خوابوں سمیت دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گۓ ۔ پولیس نے انسانی اسمگلنگ کرنے والے اس ایجنٹ کو گرفتار کر لیا ہے ۔ کیا اس جیسے خواب دیکھنے والے ان نوجوانوں کے خوابوں کو بھی گرفتار کر پاۓ گی جو ملک میں روزگار نہ ہونے کے سبب غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جا کر گھر والوں کو ایک بہتر مستقبل دینا چاہتے ہیں ؟؟

 

To Top