شوہر کی موت کے بعد آسیہ بی بی نے ایسا کیا کام شروع کر دیا کہ گلی محلے کے لڑکوں نے ان پر آوازیں کسنا شروع کر دیں

ایک عورت کا شادی کے بعد سب سے بڑا سہارہ اس کا شوہر ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں عورت پر اگر گھر کے اندر کے امور کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں تو مرد اس گھر کا نگہبان اور سایہ ہوتا ہے جس کی چھاؤں تلے بیوی اور بچے زمانے کے سرد و گرم سے محفوظ رہ کر زندگی کے تمام امور انجام دیتے ہیں

مگر بعض اوقات اللہ تعالی بعض لوگوں کے سروں پر سے یہ سایہ ایسے وقت میں واپس لے لیتا ہے جب بظاہر اس کی ضرورت سب سے زيادہ ہوتی ہے اس موقعے پر اللہ تعالی عورتوں کو اس عزم و حوصلے سے نوازتا ہے کہ وہ ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داریاں ایسے عزم اور حوصلے سے اٹھاتی ہیں کہ وہ دنیا والوں کے لیۓ ایک مثال بن جاتی ہیں

ایسی ہی ایک خاتون آسیہ بیبی بھی ہیں ان کی زندگی اور بہادری تمام خواتین کے لیۓ ایک مثال ہے ان کی شادی انتہائی کم عمری میں پندرہ سال کی عمر میں کروا دی گئی ان کے شوہر ان سے بڑی عمر کے اور شراب کے عادی تھے شادی کے چھ سال کے بعد ایک دن شراب کے نشے میں ہونے کے سبب ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ اپنی تمام ذمہ داریوں کا بار آسیہ بیبی کے کاندھوں پر چھوڑ کر خود راہی ملک عدم ہو گۓ

اس وقت آسیہ بی بی کی گود میں ایک دو سال کا بیٹا اور ایک سال کی بیٹی تھی اوران کی اپنی عمر صرف اکیس سال تھی ۔ پہاڑ جیسے زندگی کا سفر اور اس پر اتنے کمسن بچوں کی ذمہ داری کسی کا بھی حوصلہ پست کر دینے کے لیۓ کافی ہوتا ہے مگر آسیہ بیبی نے ہمت کا دامن نہیں چھوڑا

انہوں نے اپنے ایک کزن سے کچھ پیسے ادھار لے کر ایک اسکول وین خرید لی اور اسکول کے بچوں کو لانے لے جانے کا کام شروع کر دیا عرصہ پینتیس سالوں سے انہوں نے اسی پیشے کو اپنے روزگار کا ذریعہ بنا لیا اور اس طرح اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ عزت سے پالا

ان کا یہ ماننا ہے کہ بیوہ ہوتے ہی انسان سے ہر سہارہ چھٹ جاتا ہے اس موقعے پر عورتوں کو خود حوصلہ کرنا چاہیۓ اور کسی اور کی طرف مدد کا ہاتھ پھیلانے کے بجاۓ اپنی روزی روٹی کی فکر خود کرنی چاہیۓ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ کما سکتی ہیں تو باقی عورتیں بھی ایسا کر سکتی ہیں

آسیہ بی بی جیسی خواتین معاشرے کے لیۓ نہ صرف ایک مثال ہیں بلکہ ان کی ہمت دیکھ کر باقی لوگوں کو بھی اس بات کا حوصلہ ملتا ہے کہ اگر کوشش کی جاۓ تو اللہ تعالی کی مدد ضرور شامل حال ہو جاتی ہے

To Top